اس نظام کا حصہ تو آپ بھی ہیں صاحب،ازقلم :غنی محمود قصوری

0
78

اس نظام کا حصہ تو آپ بھی ہیں صاحب

ازقلم غنی محمود قصوری

ہمارے ہاں اکثر یہ بات عام ہے کہ جو کام ہم کر رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں اچھا لگتا ہے مگر وہی کام جب کوئی اور کرے تو وہ ہمارا نا پسندیدہ ہو جاتا ہے3 دہائیاں قبل پاکستان میں ایک مذہبی جماعت معرض وجود میں آئی جس نے دنیا بھر کے انسانوں بلخصوص مسلمانوں کے لئے ہر سماجی،خدمتی کام کیا ان کے اس کام کی بدولت ان پر پابندیاں لگیں اور ان کے کام بند ہوتے گئے اور وہ نئے ناموں سے پھر آتے گئے-

یہ ایک کھیل سا بن گیا پابندیاں لگنا اور پھر ان کا نئے ناموں سے آنا خیر انہوں نے اپنے دعوتی،سماجی خدمتی کام نا بدلے اور کٹھن حالات کا مقابلہ کیا وقت گزرتا گیا اور ان کے کاموں میں جدت آتی گئی اور پوری دنیا میں ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عالمی اداروں نے ان پر پابندیاں عائد کروا دیں-

ماضی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یہ لوگ ٹیلی ویژن،تصویر کشی اور جمہوریت کے سخت خلاف تھے اور جمہوری نظام کو کفریہ نظام کہا کرتے تھے اور اپنے سٹیج سے اعلان کیا کرتے تھے کہ ہم کبھی اس نظام کا حصہ نہیں بنیں گے پھر رفتہ رفتہ ٹیلی ویژن کے نقصانات کے ساتھ افادیت کو دیکھتے ہوئے خود انہوں نے ٹیلی ویژن پر آنا شروع کر دیا جس سے دعوتی و خدماتی کاموں میں تیزی آئی اور لوگوں میں ایک جذبہ نمایاں ہوا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ کچھ لوگ تو ان رفاعی،فلاحی،دینی کاموں کی لگن میں ان سے جڑ گئے تو کچھ لوگوں نے اپنی جماعتیں بنا کر انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے کام شروع کر دیا-

اسی طرح بطور ایک مذہبی جماعت اپنے اوپر لگی پابندیوں کے باعث دعوتی،سماجی خدماتی کاموں کی رکاوٹ کے باعث ان کو احساس ہوا کہ اس دور نظام جمہوریت ( جو کہ دراصل غیر شرعی ہے) کا حصہ بنے بنا اپنا وجود رکھنا ناممکن ہےسو ماضی کے واضع اعلانات کے باوجود انہوں نے بھی الیکشن میں حصہ لیا جس پر انہی کے بعض اپنوں نے سخت اعتراض کیا کہ آپ نے کم و بیش 3 دہائیوں تک جمہوریت کو کفریہ نظام کہا اور اس سے دوری اپنائی اور اب خود ہی سیاست میں آکر اس نظام کا حصہ بن گئے ہیں اس صورتحال کا راقم نے خود عملی مشاہدہ کیا اور دونوں فریقین کیلئے کچھ اصلاح کرنے کی کوشش کی-

اس جماعت کے قائدین و کارکنان کے نام یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اتنی جلدی فیصلہ کرنا اچھا نہیں ہوتا جیسا کہ آپ لوگوں نے لوگوں کے ٹی وی تڑوا دیئے اور پھر رفتہ رفتہ ٹی وی کے نقصانات کی طرح فوائد دیکھتے ہوئے خود ہی ٹی وی پر آکر دور حاضر کے ڈیجیٹل فوائد سے مثبت کام لیا اور اپنے دعوتی کاموں کو زیادہ لوگوں تک پہنچایا اس سے قبل جب آپ لوگ ٹی وی مخالف تھے تو بہت کم ہی لوگ آپ کے کاموں سے واقف تھے یہ مخالفت آپکی غلطی تھی-

اسی طرح جب آپکو احساس ہوا کہ اس جمہوری نظام کا حصہ بنا بنے اس دور میں اپنا وجود قائم رکھنا ناممکن ہے تو آپ نے اپنی بقاء اور اپنے خدماتی کاموں کے تسلسل کیلئے اور خدمت انسانیت کیلئے جمہوریت کو اختیار کیا جو کہ دور حاضر کی ایک بہت بڑی ضرورت ہےخیر اس میں اللہ رب العزت کی بھی رضا مندی شامل ہے کیونکہ شاید آپ اسی وقت ٹی وی پر آتے اور فوری سیاست شروع کرتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے اور آپ بھی کچھ معاشرتی برائیوں کے مرتکب ہوئے ہوتےسو جو بھی کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر ہی کرتا ہے-

اب دوسری اصلاح ان لوگوں کیلئے جو اس جماعت کے سیاست میں آنے کے مخالف ہیں اور خود بھی اسی سیاسی جمہوری ( درحقیقت کفریہ) نظام کا حصہ ہیں وہ لوگ سب سے پہلے سیاست،جمہوریت کی تشریح سن لیں کہ اسلام میں جمہوریت کوئی چیز نہیں کہ جدھر زیادہ ووٹ ہوجائیں ادھر ہی ہو جاؤ بلکہ اسلام کا کمال یہ ہے کہ ساری دنیا ایک طرف ہو جائے لیکن مسلمان اللہ ہی کا رہتا ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر نبوت کا اعلان کیا تھا تو الیکشن اور ووٹوں کےاعتبار سے کوئی بھی نبی کریم کے ساتھ نہیں تھا-

نبی کریم کے پاس صرف اپنا ووٹ تھا لیکن کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغام کے اعلان سے باز آ گئے کہ جمہوریت( لوگوں کی) چونکہ میرے خلاف ہے اور اکثریت کی ووٹنگ میرے خلاف ہے اس لیےمیں اعلانِ نبوت سے باز رہتا ہوں؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ میرے نبی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک نظام ترتیب دیا جو کہ اسلامی نظام کہلاتا ہے مگر افسوس کہ اس نظام میں وہ اسکامی نبوی نظام دب چکا ہے اور آج ہم اس نظام میں اس قدر دبے ہوئے ہیں کہ ہمیں زندہ رہنے کیلئے پل پل جمہوری نظام کو گلے سے لگانا پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے اس نظام کی کبھی نفی نہیں کی بلکہ آپ نے بھی بہت پہلے سے اس نظام کو گلے سے لگایا ہوا ہے حالانکہ چاہئیے تو یہ تھا کہ آپ اس نظام کا رد کرتے-

آج ہم اس نظام کی طرف دیکھیں تو یہ ہم پر جبری مسلط ہے اور اپنی بقاء کی خاطر ایک عام مسلمان سے لے کر بڑے سے بڑا عالم دین بھی اسی جمہوری نظام کے تابع ہے نہیں یقین تو اس کے زیر استعمال ہر چیز پر ادا ہونے والا ٹیکس دیکھ لیجئےکوئی کرے ہمت کہ میں تو ٹیکس نہیں دیتا اور اپنی زندگی بغیر ٹیکس کے گزاروں گا کیونکہ ٹیکس حرام ہے مگر ہم ہر چیز پر ٹیکس دینے پر مجبور ہیں حتی کہ ہماری مساجد بھی ٹیکس دیئے بنا نہیں بنتیں نہیں یقین تو جس بھٹہ خشت سے آپ اپنی مسجد کیلئے اینٹیں خریدتے ہیں ان سے ذرا پوچھئے بھئی اینٹ کی اصل قیمت کیا ہے اور اس پر گورنمنٹ کا ٹیکس کتنا ہے ؟نیز سیمنٹ،ریت ،بجری وغیرہ-

اسی طرح مسجد میں استعمال ہونے والی بجلی کی اصل قیمت بل میں دیکھئے اور ساتھ میں لگا ٹیکس بھی دیکھئے ہونا تو یہ چائیے تھا کہ دور ماضی کی طرح مساجد کو حاکم وقت چلاتا مگر یہاں تو حاکم وقت مساجد سے ٹیکس وصول کرتا ہے ٹیکس حرام ہونے بارے نبی کریم کا واضع فرمان ہے کہ

إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَھُودِ وَالنَّصَارَی وَلَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ
’دسواں حصہ(مال تجارت کا ٹیکس) صرف یہود و نصارٰی پر ہے مسلمانوں پر نہیں
(سنن ابی داود،ج:۸،ص:۲۶۷)
یہاں تو جناب عام مسلمان کی بجائے مساجد سے بھی ٹیکس لیا جاتا ہے اور ہم اپنی مساجد کا ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں بصورت دیگر مسجد کا میٹر کٹ جائے گا اور ہماری مسجد کا اے سی،پنکھے،گیزر بند ہو جائے گا اور نمازی مسجد کا رخ نا کرینگے تو جناب جب ہم اپنی بنائی گئی مسجد پر ٹیکس دینے پر مجبور ہیں اور اسی ٹیکس دینے والی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو جناب کیا اب ہم اس کفریہ نظام کے اندر چلنے والی مسجد اللہ کے گھر میں نماز پڑھنا چھوڑ دیں ؟نہیں ہرگز نہیں ہمیں مسجد کو آباد رکھنا ہے مگر جو جبر گورنمنٹ جمہوریت کے ذریعہ کر رہی ہے اس کی جوابدہ روز قیامت وہی ہو گی ناکہ ہم-

اسی طرح اسلام میں ویزہ،پاسپورٹ،بارڈر سسٹم کا کوئی وجود نہیں کیونکہ ساری زمین اللہ کی ہے مگر اس نظام کے تحت ہمیں ٹیکس دے کر ویزہ لینا پڑتا ہے پھر اسی ویزے کے ذریعہ ہم حج و عمرہ کرتے ہیں تو کیا اب ہم اپنا مقدس فریضہ حج و عمرہ بھی چھوڑ دیں ؟اب سب جانتے ہیں کہ تصویر کشی حرام ہے مگر بالغ ہوتے ہی ہمارا شناختی بنوانا لازم ہے اور اس پر تصویر لگوانا بھی لازم تو کیا کوئی اس دور میں بغیر شناختی کارڈ کے رہ سکتا ہے ؟ تو حضور والا سیاست میں اپنی بقاء رکھنے والے ان مجبور لوگوں کا سیاست میں آنا ناجائز کیسے ہے بھلا؟یاں تو خود اس نظام سے نکل کر دکھلائیں یاں پھر غیبت اور طعن و تشنیع سے باز آجائیں کیونکہ کسی کی غلطیوں پر طعن و تشنیع کی بہت بڑی ممانعت ہے اور اس بارے فرمان الہی ہے کہ :

اے ایمان والو !مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ ۔۔الحجرات 1

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے

ہر غیبت کرنے والے طعنہ دینے والے کے لیے ہلاکت ہے ۔ الھمزہ 1

تو جناب یاں تو اپنے گھر ،اپنے کاروبار اپنی آل اولاد کو اس کفریہ سیاسی ،جمہوری نظام سے دور لیجائیں یاں پھر اللہ رب العزت سے ڈرتے ہوئے کسی کی غلطیوں پر طعن و تشنیع نا کریں اور اپنی آخرت سنواریں کچھ انہی کی جماعت کے افراد بھی سابقہ جماعتی بیانات پر بد دل ہو کر اس نظام کا حصہ بننے پر دل برداشتہ ہیں تو ان کی خدمت میں ایک حدیث نبوی کی مثال پیش خدمت ہے

جس نے امیر کی خوش دلی سے اطاعت کا شرف حاصل کیا گویا کہ اس (خوش نصیب) نے میری(یعنی سید الاولین والآخرینﷺ) کی اطاعت کا شرف عظیم حاصل کیا اور جس (بدنصیب) نے (مدینۃ الرسول ﷺ) کی نسبت سے متعین امیر کی نافرمانی کے جرم عظیم کا ارتکاب کیا گویا اس نے براہ راست سید الاولین والآخرین ﷺ کی نافرمانی کے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ( صحیح بخاری ،کتاب الجہاد، 2957)

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آپ کے امیر نے تو اس نظام کو حصہ بننے کا اعلان کیا ہے جو کہ پہلے سے ہی چل رہا ہے جس نظام میں آپ اپنا شناختی کارڈ بنواتے ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں اور کوئی آپ کو عشر و زکوٰۃ بارے پوچھنے والا نہیں اور یہی لوگ کچھ ہمت کرکے آپکو عشر و زکوٰۃ ،حج و جہاد ،نماز و صدقات کی تلقین کرتے ہیں تو پھر برات کیسی بھئی امیر نے کوئی نیا نظام تو متعارف کروا نہیں دیا اپنی طرف سے ؟سوچئے اگر اس پہلے سے اپنائے نظام کے ذریعہ سے آپ اپنے دعوتی،خدماتی کام جاری رکھ سکتے ہیں تو مضائقہ ہی کیا ہے ؟-

ایک اور اہم مثال پیش خدمت ہے کہ نبی کریم کا فرمان ہے کہ دائیں جانب نا تھوکا جائے اور پھر دوسری حدیث ہے کہ قبلہ رخ نا تھوکا جائے ایک اور حدیث ہے کہ بائیں جانب تھوکا جائےاب میں اس پوزیشن میں کھڑا ہوں کہ میری بائیں جانب قبلہ رخ ہے تو حدیث تو مجھے بائیں جانب تھوکنے کی اجازت دے رہی ہے مگر جب دوسری حدیث دیکھوں تو قبلہ رخ بھی تھوکنا منع ہے اور دائیں جانب تھوکنے سے بھی حدیث نے منع فرمایا ہے تو کیا اب میں نا تھوکوں؟سوچنے کی بات ہے نا ؟-

تو جناب اب مجھے تمام احادیث کا بھی احترام کرنا ہوگا اور اپنی تھوک کو بھی تھوکنا ہوگا تو اس لئے میرا حدیثوں کا رود و بدل تو جائز نہیں مگر میرا محض رخ کرنا بنتا ہے لہذہ ماضی کی باتوں کو رخ تصور کریں اور یہ ذہن نشیں کرلیں کہ اس نظام کے ذریعہ ہی اگر اسلامی نظام کی طرف جایا جا سکتا ہے تو کیا مضائقہ ہے ؟؟-

Leave a reply