عِشق . تحریر : محمد طلحہ

0
32

عشق کے عام طور معنی پھٹ جانے کے ہیں لیکن میں اس قدر گھٹیہ اور غیر مناسب الفاظ ( پھٹ جانے) کو عشق کا معنی نہیں سمجھتا میں اپنی اصطلاح میں عشق کے معنی کو ” سب کچھ لٹا دینا” کے سمجھتا ہوں

عشق کی ع سے ناواقف لوگ بیواقوفیت کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں کسی بھی ذات کا طالب بن جانا یا پھر کسی بھی ذات کو ہر حال میں حاصل کرنا عشق کہلاتا ہے
یہ عشق ہی تھآ جو وجہہ تخلیقِ کائنات بنا یہ عشق ہی تھا جس نے محبت کی شیرینی کو الفاظوں میں بیان کیا

عشق أس گرم آگ کا نام ہے جو عاشق کے اندر کو سوائے خدا کے سب کچھ جلا دیتی ہے عشق مجنوں بنا دیتا ہے
عشق قلندر مزاجوں کا وطیرہ، اور سکندر مزاجوں کا نام نہاد جزیرہ سمجھا جاتا ہے عشق نے اس دنیا کو چمکایا عشق ہی اس دنیا کو رلا رہا ہے کوئی عشق سے تیر گیا کوئی بہہ گیا یہ قدرت کا اصول ہے جس کو عشق کا مزہ دستیاب ہوگیا اسکو عشق سے چھٹکارا مشکل ہے جس کو عشق کا مزہ دستیاب نہیں وہ دربدر اپنی زندگی میں لاپتہ ہے
عشق کرنا آسان ہے اسکو نبھانا مشکل ہے سسی پنوں سے لے کر بغدادیّ "ص” تک سبھی نے عشق کیا لیکن کامیابی کسی کو نہ مل سکی، آئیے میں اپنی نظر میں آپ کو عشق کی اقسام سے آگاہ کرتا ہوں عشق کی تین اقسام ہیں

پہلی عشقِ مجازی
دوسری عشقِ حقیقی
تیسری عشقِ ادھوری

عشقِ مجازی کو عام فہم زبان میں دنیا کا عشق کہتے ہیں جو کہ عمومی طور پر اکثریت کو نصیب ہو جاتا ہے عمومی طور پر کچھ لوگ عشق کر تو لیتے ہیں لیکن اپنے مقصد کا حصول کر کے عشق کو شک میں ڈال دیتے ہیں،
اسکے بعد آتا ہے عشقِ حقیقی جسکو عام طور پر اصل عشق کہا جاتا ہے یعنی اپنے اللہ سے جس نے اسے پیدا کیا، جس نے اسے رزق اور عشق دیا اس سے جب عشق کیا جاتا ہے تو دنیا کے دوسرے عشق بھی مل جاتے ہیں اس عشق کو کرنے سے آپ ہر مقام پر کامیاب ہوجاتے ہیں اس عشق کی راہ میں چلنے والوں نے ہمیشہ کامیابی حاصل کی ہے،

اِنسان سچے دِل سے عشق صرف اللہ سے ہی کرتا بے اور کرنا بھی اصولاً یہی عشق چاہیے بے شک اللہ پاک کی ذات ہی اتنی بے نیاز ہے محبت بھری ہے محبت کرنے والی ہے کل کائنات کے خالق و مالک اور رازق ہیں یقیناً اور بے شک ایک بشر کی ذات کے لیے اُن سے بڑھ کر تو کُچھ بھی نہیں اللہ پاک سے عشقِ حقیقی کی دعا مانگنی چاہیے

تیسرے نمبر پر آتا ہے
عشقِ ادھوری یعنی نہ ملنے والا عشق انسان کسی بھی عورت کو دیکھ کر اس پر فدا ہو جائے گویہ اسکے عشق میں پاگل مجنوں، بن جائے کوئی بھی ایکٹریس اسکو اچھی لگے اور وہ اس کو خام خیالی میں ہوائی پلاؤ بناتے ہوئے سوچتا رہے اسے میری نظر میں عشقِ ادھوری کہتے ہیں

آپ کو اصل عشق کی طرف جانے سے پہلے عشقِ مجازی کرنا پڑتا ہے انسان کو جب عشقِ مجازی سے ٹھوکر لگتی ہے تبھی جاکر عشقِ حقیقی نصیب ہوتا ہے
یہ فطری اور انسان کا صوابدیدی اختیار ہے انسان جس عشق کو چاہے اپنی زندگی میں لاگو کرسکتا ہے آپ کس عشق کے قائل ہیں وہ آپ نے خد چننا ہے صحیح اور غلط عشق کا انتخاب آپ نے خد کرنا ہے اگر آپ اپنے عشق کے ساتھ مخلص ہیں تو عشق مل سکتا ہے اگر نہیں تو یہ بدنصیبی ہے کہ آپ اپنے عشق کے ساتھ مخلص نہیں ہیں آپ کے سامنے 3 منازل ہیں آپ اسے اپنی عقل اور معیار کے مطابق چن سکتے ہیں باقی نصیب میں جو ملے وہ آپکا مقدر

عشق وہ واحد چیز ہے جو کسی بھی رنگ و نسل، زبان ملک و تہذیب کے اعتبار سے ہر انسان کو نصیب ہوتا ہے یہ ایک علمیہ اور تلخ حقیقت ہے کہ جو جو دنیا بدلتی جارہی ہے جو جو نِت نئے لوگ دنیا میں آتے جارہے ہیں عشق کا معیار بدل چکا ہے عشق کی ترجیحات بدل چکی ہے اب وہ عشق میں پختگی اور استواری نہیں رہی وہ جذبہ نہیں رہا اسی ادھوری اور لاپرواہ دنیا کی وجہ سے عشق کرنے والے کا جذبہ مانند پڑتا جارہا ہے

انسان کو ایک مثبت اور محبت بھرے معاشرے کو تہذیب و تمدن میں مددگار ثابت کرنے کے لیے عشقِ حقیقی کی طرف راغب ہونا چاہیے

@Talha0fficial1

Leave a reply