پھر یوں ہوا کہ عشق کے جھانسے میں آ گئے

0
45
hiraqasmi

پہلے تو ایک عمر گزاری نشاط میں
پھر یوں ہوا کہ عشق کے جھانسے میں آ گئے

حرا قاسمی

پیدائش: 26 مئی 2001
تعلیم: ایم اے انگریزی
آغاز شاعری: 2016
پتہ : ہندوستان صوبہ اترپردیش ضلع اٹاوہ

غزل
۔۔۔۔۔
دکھ کی دیوار گرانے سے رہی
یعنی میں خود کو بچانے سے رہی
چھوڑ جائے گی یہ ریزہ کر کے
زندگی ساتھ نبھانے سے رہی
دل نے سوچا ہے تری وحشت کو
سو مجھے نیند تو آنے سے رہی
درد ہوتے ہی چھلک جائیں گے
اشک آنکھوں میں چھپانے سے رہی
خود ہی احوال سمجھ لے میرا
میں تجھے دل تو دکھانے سے رہی
دور ہو جائیں اندھیرے مجھ سے
ایسی قندیل جلانے سے رہی
اب یہاں اہل ستم رہتے ہیں
اب میں زنجیر ہلانے سے رہی
لوگ محروم سماعت ہیں حراؔ
حال غم ان کو سنانے سے رہی

غزل
۔۔۔۔۔
وحشتوں کے نگر میں رہتے ہیں
یعنی ظلم و ضرر میں رہتے ہیں
بار سر پر اٹھائے نفرت کا
لوگ شہر خطر میں رہتے ہیں
منزلوں کی تلاش میں ہم لوگ
رات دن بس سفر میں رہتے ہیں
مسند دل پہ جن کا قبضہ ہو
کب وہ زیر و زبر میں رہتے ہیں
وہ جو رہتے تھے دل کی دنیا میں
اب دکھوں کے کھنڈر میں رہتے ہیں
ہم وہ جدت پسند ہیں جو حراؔ
کرگسوں کے نگر میں رہتے ہیں

غزل
۔۔۔۔۔
دامن چھڑا کہ دشت سے ہالے میں آ گئے
ہم جیسے بد نصیب بھی گھاٹے میں آ گئے
روداد سن کے اُس کی کیا یوں تو ضبط پر
کچھ اشک میری آنکھ کے پیالے میں آ گئے
پہلے تو ایک عمر گزاری نشاط میں
پھر یوں ہوا کہ عشق کے جھانسے میں آ گئے
تنہائیوں کا درد سمجھنے لگے ہیں ہم
اے ہجر! جب سے تیرے گھرانے میں آ گئے
دن بھر سجائی شوق سے بزمِ طرب حرا
آئی جو شب تو دکھ کے احاطے میں آ گئے

Leave a reply