اصلاح انتہائی ضروری.تحریر محمد وقاص شریف

0
56

معاشرہ کسی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، جس کی قوت اور درستی پر قوم کے وجود استحکام اور بقاء کا انحصار ہے معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے. معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قومی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگڑا ہوا ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔
معاشرے کا کردار بننے یا بگڑنے کا عمل فی الفور مکمل نہیں ہو جاتا، بلکہ اس میں طویل مدت صرف ہوتی ہے۔ بگاڑ کی راہ پر چلنے والے معاشرہ میں اچھی اقدار ایک ایک کرکے منہدم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ نیک و بد کے بارے میں شدید احساس رکھنے والے لوگ تو اس خرابی کو جلد بھانپ جاتے ہیں، لیکن عام لوگوں پر یہ مدتوں کے بعد کھلتی ہے۔ اسی طرح معاشرہ کی اصلاح کا کام بھی ہے۔ جس طرح ایک بنیاد اٹھا کر اس پر ایک ایک اینٹ جوڑنے سے دیوار مکمل ہوتی ہے۔ اسی طرح اصلاح کا کام بھی ایک تعمیر کی منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ جب یہ کام منصوبہ بندی کے بغیر کیا جائے تو اس کی کامیابی محل نظر ہوتی ہے۔

قرآن مجید نے قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی خدا اور آخرت کے تصور سے بے نیاز ہوتی ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوا ہے اور ان میں اخلاقی مفاسد سرایت کر گئے ہیں تو اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد ہو گئی ہے۔ اس کی تباہی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ اس کے فساد کی نوعیت کیا ہے، بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت اس تکبر کی رہی ہو جو عاد اور ثمود میں تھا، اس اخلاقی گراوٹ کی رہی ہو جو قوم لوط میں پائی جاتی تھی یا اس تاجرانہ بدمعاملگی اور بد دیانتی کی ہو جس کا مظاہرہ قوم شعیب نے کیا، جب بھی وہ معاشرہ کا اجتماعی کردار بن گیا تو اس کی موت کا پیغام لے آیا۔ قرآن مجید کے اس فلسفہ کی رو سے ایک قوم کے برمندہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرہ کے اندر خدا کا خوف اور اس کے ساتھ صحیح بنیادوں پر تعلق پایا جائے۔ دلوں میں آخرت کے محاسبہ کا اندیشہ موجود ہو اور کسی بھی قسم کے فساد اعمال کو معاشرہ پر مسلط ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ مقصد ظاہر ہے کہ صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب قوم کے اندر اصلاح معاشرہ کے لیے ایک مسلسل جدوجہد کی جاتی رہے۔ اور کسی بھی فساد کے معاملے میں چشم پوشی سے کام لے کر اسے قوم کے اجتماعی وجود میں راہ پانے کا موقع نہ دیا جائے.

Leave a reply