اسلام کیسے پھیلا ؟ تحریر ۔ ڈاکٹر زونیرا

0
45

اسلام تلوار کے زور پر پھیلا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اسلام کی شروعات کئی جنگوں سے ہوئی جن میں سب سے مشہور جنگ ہے جنگ بدر یا غزوہ بدر ۔
بدر کی اس لڑائی میں 313 مسلمانوں کا مقابلہ ایک 1000 کی فوج سے تھا ۔ اور اس لڑائی میں مسلمانوں کی جیت ہوئی ۔ ابو جہل کی قیادت میں ایک 1000 کی فوج کا مقابلہ 313 مسلمانوں سے تھا ۔ اور پھر بھی مسلمانوں کی جیت ہوئی کیونکہ اللّه نے اپنے نبی کے لئے اس جنگ میں آسمان سے 1000 فرشتوں کی فوج اتار دی تھی ۔ کیا سچ میں اللّه نے بدر کی جنگ میں اپنے نبی اور امّت کا ساتھ دیا تھا ؟ کیا بدر کی جنگ میں مسلمانوں کی طرف سے واقعی 1000 فرشتے بھی کفار کے ساتھ لڑے تھے ۔ اس پوسٹ میں ہم اسی بات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
تاریخ میں ایسی بوہت سی جنگیں ہو چکیں ہیں جن میں کم تعداد والی فوج نے اپنی بہادری سے اپنے سے بڑی تعداد والی فوج کو ہرایا ہو ۔ چمکور کی جنگ کو ہی دیکھ لیں محض چالیس بہادر سکھوں نے لاکھوں کی مغل فوج کو دھول چٹا دی تھی جن لوگوں کو اس جنگ بارے نہیں پتا وہ گوگل کی مدد حاصل کر لیں ۔پتا بھی کیسے ہو کیوں کہ ہمارے ہاں تو صرف مسلمان فاتحین کے ہی قصے سنائے جاتے ہیں ۔ مٹھی بھر انگریزوں نے اپنی حکمت عملی سے کروڑوں ہندوستانیوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا یا آج کے دور کو ہی دیکھ لیں لاکھوں یہودی کروڑوں مسلمانوں پر بھاری پڑ رہے ہیں ۔ کوئی بھی فوج جیت کے لئے اپنی تعداد پے کم اور بہتر قیادت بہتر حکمت عملی بہتر ہتھیار اور اپنے حریف فوج کی جنگی چالوں کے بارے پہلے سے معلومات پر زیادہ منحصر ہوتی ہے ۔ جو کہ اپنے جاسوس بھیج کر حاصل کیں جاتیں تھیں ۔ بدر کی جنگ بھی کچھ اسی طرح کی تھی ۔ 313 مسلمانوں کا مقابلہ مکہ کی بڑی فوج سے تھا اور آخر مسلمانوں کی جیت بھی ہوئی ۔ اس جیت کو اللّه کی طرف سے بھیجے گئے 1000 فرشتوں کی مدد سے جوڑ کر میدان جنگ میں لڑنے والے بہادر 313 مسلمانوں کی بہادی کی دھجیاں اڑا دی گیں ہیں ۔ کیا سچ میں غزوہ بدر میں اللّه نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کی مدد کے لئے 1000 فرشتوں کی فوج اتاری تھی ؟ اس کہانی کو اگر زمینی حقائق کی مدد سے جاننے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے یہ کہانی بلکل جھوٹ پر مبنی ہے ۔ ایک من گھڑت کہانی ہے ۔ ایک فرضی کہانی ہے ۔ کیسے ؟ آیئں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر غزوہ بدر میں اللّه کی طرف سے بھیجی گئی 1000 فرشتوں کی فوج والی بات کو سچ مان لیا جاۓ تو پھر مسلمان فوج کی تعداد محض 313 نہیں بلکہ بڑھ کر 1313 ہو جاتی ہے ۔ اور دوسری طرف 1000 کی فوج ۔ یعنی 1000 کی فوج کا مقابلہ 1313 کی فوج سے تھا ۔ مسلمانوں کی طرف سے 313 عام انسان اور 1000 فرشتے ۔ اور دوسری طرف صرف 1000 عام انسان ۔ اگر یہ بات سچ ہے تو جنگ یقیناً یک طرفہ ہی ہونی چاہیے تھی ۔ کیوں کہ ایک طرف عام انسان اور دوسری طرف اللّه کے فرشتے تھے جنھیں لڑنے کا طریقہ بھی اللّه نے بتایا تھا کہ تمہاری تلوار کا وار ان کی گردن پر ہونا چاہیے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان فرشتوں کے پاس کوئی جادوئی طاقت ہوتی ۔ اور وہ ایک ہی پل میں دشمن فوج کی دھجیاں اڑا دیتے ۔ دشمن فوج کا ایک بھی سپاہی زندہ نہ بچتا ۔ لیکن ایسا ہوا نہیں ۔
گھنٹوں چلنے والی اس جنگ میں دشمن فوج کے صرف 70 سپاہی مارے گئے ۔ اور میدان جنگ میں اللّه کے فرشتے موجود ہونے کے باوجود 14 مسلمان بھی مارے گئے ۔ وہ فرشتے جنھیں اللّه نے خود لڑنے کا طریقہ بھی سمجھایا تھا کہ دشمن کو کیسے مارنا ہے ۔ پھر بھی فرشتے اس جنگ میں بلکل خاموش رہے ۔ یہاں ایک بات اور سمجھ سے باہر ہے ۔ کہ قرآن میں ایک طرف تو اللّه خود کو سب سے بڑا کہتا ہے اور جو وہ صرف کہہ دیتا ہے وہ ہو جاتا ہے ۔ اگر ایسی ہی بات تھی تو بیچارے فرشتوں کو کیوں پریشان کیا ۔ آسمان سے اتر کر انھیں عرب کے تپتے ریگستانوں کی خاک چھاننا پڑی ۔ اللّه صرف کہہ دیتے اے دشمن برباد ہو جا وہ ویسے ہی برباد ہو جاتے ۔ لیکن ایسا کوئی معجزہ نہ اللّه نے دکھایا اور نہ ہی اس کے فرشتوں نے ۔ اگر ہم اپنی آنکھوں پر بندھی عقیدت کی پٹی اتار کر دیکھیں تو بدر کی جنگ دوسری جنگوں کی طرح ایک عام جنگ تھی ۔ اس جنگ میں اللّه کے فرشتوں کی شمولیت والی بات ایک من گھڑت کہانی کے سوا کچھ نہیں ۔ ایسی سبھی کہانیاں جنھیں معجزات سے جوڑا گیا ہے ۔ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ۔ صرف ضرورت ہے تو ہمیں انھیں اپنی آنکھوں پر بندھی عقیدت کی پٹی اتار کر پڑھنے کی ۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا ۔

Leave a reply