اسلام میں خواتین کی حقیقی اہمیت اوربحیثیت مسلمان ہمارے فرائض تحریر: محمد اختر

قارئین کرام، اسلام قبول کرنے والی پہلی عورت حضرت خدیجہ (رض) تھیں، اسلام کی سب سے بڑی عالمِ دین ایک عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔وہ شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیار کیا وہ بھی ایک عورت ہی تھیں جن کا نام حضرت فاطمہ (رض)تھا، آج کے اِس دور میں اسلام کو غلط معنی میں پیش کیا جاتا ہے، جبکہ در حیقت اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت اور عزت عورت کو دی گئی ہے بشرط یہ کہ ہم اسلامی تاریخ کا اُس کی اصل روح سے مطالعہ کریں۔دورِ حاضر میں غلط فہمیوں کے باوجود، اسلام میں خواتین کا درجہ محبوب کے برابر کا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں توپتا چلتا ہے کہ ایک گہری جنس پرست تاریخی سیاق و سباق کے درمیان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی اہمیت پر دلیری سے تبلیغ کی۔ خاندان اور معاشرے میں ان کی شراکت کوسراہا، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کی مذمت اور ان کے حقوق کے لئے مہم چلائے۔اسلام میں خواتین کے ارد گرد بہت سے منفی دقیانوسی تصورات اسلامی رہنمائی سے نہیں بلکہ ثقافتی طریقوں سے جنم لیتے ہیں، جو نہ صرف خواتین کے حقوق اور تجربات کی نفی کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی بھی براہ راست مخالفت کرتے ہیں۔ نادان اور پردہ دار مسلمان عورت کی دقیانوسی باتوں سے دور، شیخ ابن باز نے کہا، ”اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اس عورت کی عزت، حفاظت کرنے، انسانیت کے بھیڑیوں سے اس کی حفاظت کرنے، اس کے حقوق کو محفوظ بنانے اور اس کی حیثیت کو بلند کرنے کے لئے آیا ہے۔ ” تاریخ، ثقافت اور مذہب کے مابین تمام الجھنوں کے ساتھ، خود سے یہ سوال پوچھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید اور احادیث اسلام میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں در حقیقت ہمیں کیا سکھاتی ہیں؟

اسلام ہمیں برابری کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے

قرآن کریم ہمیں سکھاتا ہے کہ آدم اور حوا کو ایک ہی روح سے پیدا کیا گیا تھا۔ دونوں برابر کے قصوروار، یکساں ذمہ دار اور یکساں طور پر قابل قد تھے۔ بحیثیت مسلمان، ہم سمجھتے ہیں کہ تمام انسان ایک خالص حالت میں پیدا ہوئے ہیں – مرد اور خواتین – اور ہمیں ایمان کے ساتھ ساتھ اچھے ارادے اور عمل کے ذریعہ اس پاکیزگی کو بچانے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔مساوات کا مرکزی خیال دیگر اسلامی تعلیمات کے ذریعہ بھی چلتا ہے۔ قرآن مجید کی ایک اہم آیت میں لکھا ہے، ”مرد مومن اور خواتین مومن ایک دوسرے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور خیرات دیتے ہیں اور خدا اور اس کے نبی کی اطاعت کرتے ہیں۔ (قرآن، 9:71)۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لئے مرد اور عورت کی یکساں ذمہ داریاں ہیں۔ ایک اور قرآنی آیت میں خواتین اور مردوں کے مساوی حیثیت کی وضاحت کی گئی ہے، اور کہا گیا ہے، ”جو بھی مرد، عورت، نیک عمل اور ایمان رکھتے ہیں، ہم ان کو ایک اچھی زندگی دیں گے اور ان کے بہترین اعمال کے مطابق انہیں بدلہ دیں گے۔” (16:97)
خواتین کے حقوق کا تحفظ
610 ء عیسوی میں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیکس ازم میں جڑے ہوئے تاریخی تناظر میں رہ رہے تھے۔ یورپ سے لے کر عربی دنیا تک، خواتین کو مردوں کے برابر سلوک نہیں کیا گیا۔ اسلام خود ہی جزیرالعرب، اب سعودی عرب میں پیدا ہوا تھا، جہاں خواتین کے پاس کاروبار نہ تھے، نہ ہی ان کی ملکیت تھی اور نہ ہی ان کا مال وراثت میں تھا۔ مزید یہ کہ جبری شادی عام تھی، لڑکیوں کے لئے تعلیم شاذ و نادر ہی تھی، اور خواتین بچوں کو اکثر ترک کردیا جاتا تھا یا انہیں زندہ دفن کیا جاتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تاجر زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان بہت سے ناجائز عمل کے خلاف کھڑی ہوئیں، مردوں سے عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ انتہائی احترام کے ساتھ پیش آنے کی وکالت کی۔ اسلام کے قوانین کے مطابق،ہر انسان کی زندگی کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اور مرد اور خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کس سے شادی کرے اس کا انتخاب کریں اور انہیں کبھی بھی زبردستی نہیں لینا چاہئے۔ اسلامی قوانین کے تحت، خواتین کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ جائیدادیں فروخت اور خریدیں، کاروبار چلائیں، شادی کے دوران کسی بھی وقت اس سے جہیز کا مطالبہ کریں، ووٹ دیں اور سیاست اور معاشرے کے تمام پہلوؤں میں سرگرم حصہ لیں۔ یہاں یہ قابل ِ ذکر ہے کہ بہت سارے اسلامی ممالک، جیسے پاکستان اور ترکی میں خواتین کی ورزائے اعظم کی حیثیت میں سربراہی رہ چُکی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم تک یکساں رسائی کو فروغ دیا، ہمیں یہ تعلیم دی کہ، ”علم کی جستجو ہر مسلمان، مرد اور عورت کا فرض ہے۔” [ابن ماجہ] محبوب کی اپنی بیٹی، حضرت فاطمہ (رض)، اعلی تعلیم یافتہ اور قابل احترام تھیں۔ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں تویہ ثابت ہوتاہے کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کسی کمرے میں داخل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے اور اپنی نشست ا نہیں دے دیتے۔

بحیثیت مسلمان ہمارا فرض

قارئین کرام، ماضی قریب میں عورتوں کیخالف تشویش ناک حد تک بڑھتے جرائم درحقیقت دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دور ہو کر مغربی ثقافت کو پروان چڑھانے کا نتیجہ ہے، ہمیں دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا اور معاشرے میں چُھپے درندہ صفت بھیڑیوں کو عورت کے مقام، عزت و مرتبہ کا بتانا ہوگا۔کیونکہ عورت ہی وہ ہستی ہے جو ماں،بہن،بیوی کے روپ میں ہمیں اچھی تربیت دے کر عورت کی عزت کرنا سکھاتی اور معاشرے کا ایک کارآمد شخص بناتی ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کی میراث، بحیثیت مسلمان، سنت کی پیروی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم کاموں کو جاری رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ ہمیں ایک مہذب معاشرے اور قوم کو تشکیل دینے کے لئے اسلام کے احکامات اور قوانین کی روشنی میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہوگا۔
@MAkhter_۔

Comments are closed.