اسلامی دنیا کے مساٸل اور حل تحریر:شمسہ بتول

0
54

اسلامی دنیا دورِ جدید میں بھی بہت سے مساٸل سے گزر رہی ہے باوجود اس کے کہ اسلامی ممالک کے پاس قدرتی وساٸل کی افراط ہے لیکن ان وساٸل کا بہترین استعمال ابھی تک یقینی نہیں بنایا گیا ۔
مغرب کے معاشی نظام نے ترقی پزیر ممالک اور اسلامی ممالک کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اسلامی ممالک کا حال بھی اس وقت وہی ہے جو ترقی پزیر ملکوں کا ہے۔ اسلامی ممالک کو بین لاقوامی منڈی میں اپنے ملک میں بناٸی گٸی اشیاء کو اپنے ٹریڈ مارک سے بیچنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور اگر انہیں اس بات کی اجازت لینا ہو تو اس کے لیے انہیں بہت زیادہ کمیشن ادا کرنا پڑتا۔ آٸی۔ایم ۔ایف اور ورلڈ بینک کی بہت سی پالیسیز ایسی ہیں جو کہ ترقی پذیر ممالک اور اسلامی ممالک کی معیشت کو مزید کمزور کر رہی ہیں۔ اور بعض دفعہ یہ جان بوجھ کر بہت ایسی پالیسیز تشکیل دیتے ہیں جس سے حکومتوں کو گرایا جا سکا۔
آج سے 51 سال پہلے25 ستمبر 1969 اسلامی ممالک کی تنظیم وجود میں آٸی جس کا کام اسلامی مملک کی فلاح و بہبود تھا لیکن اس تنظیم کے قیام کے اتنے عرصے بعد بھی مسلمانوں کی حالت میں کوٸی بہتری نہیں آٸی۔دنیا میں مسلمانوں کی تعداد 1٠5 بلین ہونے کے باوجود بھی مسلمانوں کے پاس کوٸی ویٹو پاور نہیں ۔دیگر اقوام مسلمان قوم کو تحقیر آمیز نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
اسلامی بلاک امیر ممالک پر مشتمل ہے جیسے سعودی عرب ، کویت ، متحدہ عرب امارات اور لیبیا۔ لیکن وہ اتنے فعال اور طاقتور نہیں ہیں جیسا کہ ان کے بلاک میں کسی غریب ملک کی مدد کرنے کے لیے ان کے پاس بنیادی وسائل ہیں لیکن کوئی منصوبہ بندی نہیں ان میں ترقی کی کمی ہے۔ ان کے پاس اربوں ڈالر ہیں جو تیل کی فروخت سے آتے ہیں ، لیکن امریکہ یا مغربی ممالک کے ہاتھوں میں رہتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان ، مذکورہ اسلامی ممالک کے مقابلے میں کم وسائل والا ہے ۔اسلامی ممالک پر یہ فرض ہے کہ وہ مسلم ممالک کے عالمی مسائل میں مقابلہ کرنے کے لیے صنعت کے ساتھ ساتھ زراعت کو بھی ترقی دیں۔
اتحاد کا فقدان مسلم ممالک کی ایک اور اہم معذوری ہے۔ وہ مختلف مسائل پر مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ سازش کرنے والے اور غدار ہمارے اپنے بھی ہیں۔ جو اپنے مقصد کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ کشمیر کے لیے ان کے پاس متحد آواز نہیں ہے۔ فلسطین اور کشمیر عرصٸہ دراز سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ان کے گھروں کو آگ لگا دی گٸی بچوں کو شہید کر دیا گیا عورتوں کی عصمت دری کی گٸی مگر اقوامِ متحدہ اور امن کے علمبردار دیگر ممالک خاموش تماشائی بنے سب دیکھتے رہے یہاں تک کے انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں بچوں کے عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں سب خاموش ہیں لیکن سب سے زیادہ ان ممالک کے لیۓ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک نے بھی ان کا اس مشکل گھڑی میں ساتھ نہیں دیا۔ جبکہ کشمیر اور فلسطین پوری امت مسلمہ کا مسٸلہ ہے اور دنیا کی طرف حل طلب نگاہوں سے دیکھ رہا ہے لیکن افسوس کے تمام مسلم ممالک نے اتفاق نہیں کیا اس مسٸلہ پر۔ فلسطین میں اسرائیل أور بوسنیا کی راۓ اور مطالبات میں اختلاف ہے ۔پی ایل او ، مصر اور لیبیا ہندوستان کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں ۔ فلسطین کے لیے ، مصر کا باقی عرب دنیا سے اختلاف ہے۔ عراق کویت جنگ میں ہم دونوں ممالک کو بچا نہیں سکے کیونکہ ہم ایک اُمت ہو کر بھی ٹکڑوں میں بٹے ہوے ہیں جس کا نقصان ہمارے مسمان بھاٸی بہنیں اور بچے اُٹھا رہے ہیں۔ ہمارے درمیان باہمی اتفاق اور اتحاد اور اعتماد کی شدید کمی ہے جس کا فاٸدہ ہمارے دشمن بخوبی اُٹھا رہے ہیں۔
امت مسلمہ کا اتحاد اپنی آزادی ، ترقی ، استحکام ، بقاء کو برقرار رکھنے اور اپنی سابقہ ​​شان و شوکت اور وقار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ وہ تمام رکاوٹیں جو مسلم اتحاد کی راہ میں حائل ہیں ہمیں ان رکاوٹوں کا تدارک کرنا ہو گا اور باہمی اتحاد سے ان رکاوٹوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔ دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانا ہو گا ہمارے پاس وساٸل ٹیلنٹ اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوان نسل موجود ہے ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو آپسی اتفاق اور بھاٸی چارے کی۔ مسلم دنیا اس کمی کو ختم کرنا ہو گااور مل جل کر اپنے تمام تر وسائل کو بہتر طریقے سے بروۓ کار لانا ہو گا۔ بین الاقوامی منڈی میں اپنی تجارت کو مضبوط کرنا ہو گا۔ مسلم دنیا کے اپنے مالیاتی ادارے ، دفاعی پیداواری یونٹ ، فلاحی تنظیمیں ، چارٹر وغیرہ ہونا بہت ضروری ہے ۔مسلمانوں کو کسی بھی فریق کے خلاف ہدایت نہیں دی جاتی لیکن پھر بھی دنیا ان کے لیے دہشتگرد اور انتہا پسند جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے جبکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ مسلمان ممالک متاثر ہوۓ اور سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے دیں۔ اگر مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد و اعتماد پیدا کر لیں تو مسلمان نہ صرف ایک عظیم قوم بن کر دنیا کے نقشے پر ابھریں گے بلکہ دنیا سے استحصال ، ناانصافی ، جہالت ، ظلم ، اندھیرے ، ناامیدی وغیرہ کو بھی دور کر دیں گے۔ ان کا اتحاد قوموں کے اتحاد میں ان کا درجہ بلند کرے گا.تمام اسلامی ممالک کے سر براہان کو آپس میں اور اپنی قوموں کے درمیان اتحاد و یگانگت کو فروغ دینا ہو گا تا کہ ہم دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ بحال کر سکیں۔

@b786_s

Leave a reply