اسلاموفوبیا کا بڑھتا ہوا خطرناک رحجان اور اقوام متحدہ .تحریر: محمد زمان

0
35

مغرب میں اسلاموفوبیا کے رحجان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مذہبی تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی کینیڈا کے علاقے سکاٹون میں دو سفید فام افراد نے حملہ کر کے ایک پاکستانی محمد کاشف کو شدید زخمی کر دیا۔ ان کے بازو پر گہرے زخم آئے اور 14 ٹانکے لگے۔ حملہ آوروں نے محمد کاشف کی داڑھی بھی کاٹ دی۔ واضح رہے کہ دو ہفتے قبل بھی کینیڈا کے شہر سینٹ البرٹ میں دو مسلمان خواتین پر حملہ کیا گیا تھا۔ چاقو بردار شخص نے خواتین کو دھکے دئیے ، ان پر نسلی جملے کسے ، پھر حجاب سے کھینچ کر نیچے گرا دیا۔ حملے میں ا یک خاتون زخمی بھی ہوئی تھی۔ اسی طرح کینیڈا کے دارالحکومت ٹورنٹو میں ایک مرد اور خاتون نے زبردستی مسجد میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ اسلاموفوبیا کی لہر پورے مغرب میں ہے تاہم کینیڈا میں ایسے واقعات کا تسلسل حیران کن ہی نہیں بلکہ مہذب دنیا کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے کیونکہ چند ہفتے قبل بھی کینیڈا میں دہشت گرد کی جانب سے ایک ہی خاندان کے چار افراد کو ٹرک سے روندے جانے سے جاں بحق ہونے والے افراد میں عمر رسیدہ ماں، فزیو تھراپسٹ بیٹا ، بہو اور کمسن پوتی شامل ہیں جبکہ نو برس کا پوتا شدید زخمی ہو گیا۔ 20 سالہ دہشتگرد مذہبی تعصب میں مبتلا تھا ، جسے پولیس نے گرفتار کر لیا ۔ اس پر کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ اونٹاریو واقعہ نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کینیڈا میں اسلاموفوبیا کے لیے کوئی جگہ نہیں ، اس نفرت کو ختم کرنا ہو گا۔۔

اس واقعہ کی کینیڈا سمیت پوری دنیا میں شدید مذمت کی گئی جبکہ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس وقت کہا کہ یہاں اسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اس کے بعد تسلسل سے ایسے واقعات کا ہونا افسوسناک ہے۔ دنیا میں پر امن بقائے باہمی کے فروغ کے لیے ایسے واقعات پر قابو جانا ضروری ہے۔ کینیڈا سمیت دنیا کے جس کونے میں بھی اسلاموفوبیا کی لہر موجود ہے اس کے آگے مکمل بند باندھنے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف بیانات سے ممکن نہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے مغربی ممالک کے حکمران اور ادارے جتنا دبائو پاکستان پر ڈالتے ہیں اس کی معمولی سی ذمہ داری انہیں خود بھی لینی چاہیے اور اپنے ممالک میں بڑھتی ہوئی فکری شدت پسندی پر قابو پانا چاہیے۔ دنیا میں تو پہلے ہی تہذیبوں کے تصادم کے خطرات موجود ہیں ۔ ایسے واقعات ان کو ہوا دے سکتے ہیں، لہذا کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا فرض بنتا ہے کہ وہ کینیڈا کا سافٹ امیج دنیا میں برقرار رکھنے کے لیے اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرناک نظریات و رحجانات کو بھرپور جذبہ انسانیت کے ساتھ کچل کے رکھ دیں ، ورنہ پانی سر سے گزر گیا تو سب کچھ لاحاصل رہے گا۔کینیڈا میں مقیم خاندان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس میں مسلمانوں سے نفرت جھلکتی نظر آتی ہے۔ ایسے حملے کافی عرصے سے مغربی ممالک میں ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا واقعہ مغربی ممالک میں بڑھتے اسلاموفوبیا کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کو اجتماعی کوششیں کرنا ہونگی۔

وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف سے اس حملے پر ردعمل اسلاموفوبیا کے خلاف مثبت سوچ کا اظہار ہے۔ ایسی سوچ مغربی معاشرے کی طرف سے اجتماعی اور متفقہ طور پر سامنے آئے تو بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف پیشرفت ہو گی۔ مسلمانوں پر شدت پسندی کا ملبہ ڈالنے والوں کو حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ اس حوالے سے مسلم ممالک کو بھی اسلام کے بارے میں پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے موثر اور فعال پلیٹ فارم پر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کی لہر میں بڑی شدت آئی ہے۔ حتی کہ مہذب کہلانے والے اور اپنے ملک اور معاشروں میں تحمل و برداشت کو فروغ دینے کے دعویدار بھی اسلامو فوبیا میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات گزشتہ کئی ماہ سے پے درپے ہو رہے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی بنا پر مساجد میں گھس کر نمازیوں کو شہید کیا گیا۔ شاپنگ مالز میں آنے والوں کو مذہبی منافرت اور تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔ سڑک کنارے کھڑی فیملی کو ٹرک تلے روند دیا گیا۔ الغرض جہاں بھی موقع ملا، اسلام دشمنی کا مظاہرہ کیا گیا جس سے پورے عالم اسلام میں سخت تشویش پائی جا رہی تھی جس پر پاکستان نے دیگر اسلامی ملکوں سے مل کر او آئی سی کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی اور اسلامو فوبیا کا معاملہ جنرل اسمبلی تک لے گئے جس پر پاکستان کی کوششوں کو کامیابی ملی اور بالآخر جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عالمی حکمت عملی میں مذہبی اور نسلی امتیازات کی بالواسطہ یا بلا واسطہ اقسام کے خاتمے اور اس بنیاد پر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے نفرت اور تشدد پھیلانے کے عمل کو روکنے پر بھی زور دیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ ایسے شدت پسندوں اور اسلام مخالف سرگرم دہشت گرد گروپوں سے لاحق خطرات کے بارے میں رپورٹ جاری کرے۔اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے منظم سازش اور باقاعدہ منصوبہ بندی دہشت گردی کو اسلام سے نتھی کیا جاتا رہا ہے حالانکہ کئی اسلامی ملک بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں جبکہ دوسری طرف اسلام نے نہ صرف ہشت گردی بلکہ مذہب کی بنیاد پر کسی سے تعصب اور نفرت کی بھی مذمت کی ہے۔ امید ہے کہ جنرل اسمبلی کے ریمارکس پر اقوام متحدہ کے عملدرآمد کرانے کے حوالے سے اسلامو فوبیا کا بڑھتا ہوا خطرناک رجحان اپنی موت آپ مر جائے گا اسلامو فوبیا سے پیدہ شدہ دہشت گردی کے خطرات کو گلوبل سٹرٹیجی میں شامل کرنا بڑی کامیابی ہے۔۔ جنرل اسمبلی کے سنہری فیصلے کو اسلامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے

Leave a reply