کرونا کی افرا تفری نے بہت لوگ بے نقاب کر دئیے،فیصل بخاری

0
35

جب ٹائٹینک TITANIC جہاز ڈوب رھا تھا تو اس میں چار طرح کے لوگ سوار تھے:
۱۔ امیر ترین لوگ جنہوں نے ٹکٹ کے ساتھ ھی حفاظتی جیکٹ اور ریسکیو والی کشتیوں کا بندوبست کررکھا تھا۔
۲۔ مڈل کلاس جنہوں نے کم از کم حفاظتی جیکٹس کا بندوبست کر رکھا تھا۔
۳۔ غریب ترین مزدور مفرور اور معتوب طبقہ جن کی اکثریت تھی مگر کسی تباھی سے بچاؤ کا کوئ سلسلہ نہیں تھا ان کے پاس۔ ان کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔
۴۔ اس جہاز کا اپنا عملہ اور کپتان جن کی ڈیوٹی ان تمام مسافرو ں کو بچانا تھا اور آخر دم تک جہاز سے نہ کودنا ان کی ذمہ داری تھی۔

ھمارےمعاشرہ میں آج کل کے بحران میں کیا آپ کو من و عن یہی تفریق نظر نہیں آ رھی؟ ماریہ بی پہلے طبقہ کی روشن مثال ھے۔ ھم سب فیس بک اور ٹویٹر والے دوسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ھیں۔ جبکہ دھاڑی والا ریڑھی والا مزدور تیسرا طبقہ ھے۔ جمھوریت میں اکثریت ترجیح ھوتی ھے مگر یہاں الٹ نظام چل رھا ھے۔
آخری طبقہ آپ کی حکومت اور سرکاری ملازم، افواج، پولیس اور ڈاکٹر نرس اور تمام لوگ ھیں جو جہاز سے نہیں کودیں گے آخری دم تک۔ کہتے ھیں اگر افراتفری نہ ھوتی اور تقسیم متوازن ھوتی تو شاید اتنی جانوں کا ضیاں نہ ھوتا۔ بے شک جہاز نے ڈوبنا تھا۔ بے شک لوگوں نے مرنا تھا مگر اس سانحہ کو تاریخ طبقاتی ناانصافی کے حوالے سے یاد رکھتی ھے۔

میرے بہت پیارے دوست اس افراتفری میں میری نظروں میں ایکسپوز ھوے ھیں۔ بزدلی، نفرت اور تقسیم کا اظہار کر رھے ھیں۔ اگر آپ کو یاد ھو تو اس جہاز پر ایک گروپ وائلن بجانے والا بھی تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آخری سانس تک وائلن بجائیں گے تاکہ لوگوں میں امید پیدا ھو۔ مجھے وہ وائلن والا سمجھ لیجئے۔ آئیں اپنا اپنا وائلن اٹھائیں اور لوگوں کی ھمت باندھیں!!

(فیصل بخاری)

Leave a reply