عثمان بھائی نے جدید اصطلاحات کی بات چھیڑ دی ہے۔ ماں سے موم ماسی سے آنٹی اور آنٹی سے آنٹ کا سفر طے ہو چکا ہے۔ لوگ آگے کو بڑھ رہے ہیں اور ایک ہم فقیر ہیں مزید پچھلی اخلاقیات پر آگئے۔
یادش بخیر ہمارے گھر والوں بے ہمیں ماسی کو آنٹی کہنا ہی سکھایا تھا، سو ہم ماسی کی مٹھاس سے محروم محض ہی تو تھے، لیکن جب ہم مشرف بہ مشرق ہوئے تو آنٹی کو ماسی کہنے لگے۔ میرے بیٹے کو گھر والوں بے بتھیری اردو سکھانے کی بات کی، ہم نے مگر ٹھٹھ پنجابی سکھائی۔
اس کا ایسا مطلب نہیں کہ ہم کوئی ماضی گزیدہ ہوگئے ہیں یا ماضی کے ناسٹلجیا میں مبتلا ہوگئے ہیں، یہ ایک اور طرح کا شعور ہے، جو مالک سے دعا ہے تمہیں بھی نصیب ہو۔
مسئلہ تہذیب مغرب کا ہے، جو اس کی حقیقت سے واقف ہونے لگے، اسے اس کے ہر مظہر سے چڑ ہونے لگتی ہے۔ ہم بھی ابتداء میں اسی روسیاہ کی زلف گرہ گیر کے اسیروں میں رہے۔ وہ وقت ہم پہ بھی گزرا جب ہم کسی کو بتاتے ہوئے شرماتے تھے کہ ہم مدرسہ کے طالب علم ہیں۔ ہم اس فیز سے بھی گزرے کہ مولوی یا ملا سے نفرت کر بیٹھے۔
ہر روایت مخالف کام کو سراہنے کا بھوت سوار رہا، مجھے یاد ہے ہمارے استاذ محترم نے جب ہم سے کہا تھا کہ بیٹا! پڑھ کر کیا بننا چاہتے ہیں؟ تو جواب یہ دیا تھا کہ کم از کم روایتی مولوی نہیں، لیکن اب سوچتا ہوں کہ کاش روایتی مولوی ہی بننے کا جواب دیا ہوتا۔ کیوں کہ روایت کی مخالفت کسی دلیل کی بنا پر نہیں فیشن کی بنا پر کی جا رہی تھی۔ ہمیں بھی جدید ادیبوں کے سڑے گلے فقرے اپنی جاتی پر کسنے میں وہی سکون ملتا جو آج کل نئے جوانوں کو ملتا ہے۔
ہم بھی اپنا مزاح ملا سے شروع کرتے اور اسی پر ختم کرتے رہے ہیں۔ ہم نے جب پہلی دفعہ اخلاق کا نعرہ لگایا تھا تو شاید لبرل ازم کے تحت ہی لگایا تھا، ہمیں بھی احادیث ج۔ہاد کھٹکتی رہی ہیں۔ ہم بھی ان میں سے رہے ہیں، جو اخلاقیات کو عقیدے سے بھی اوپر کا کوئی شعار قرار دیا کرتے تھے۔ ہم نے بھی وہ دن دیکھے جب دینی غیرت سے مجبور سخت فتوی لگانے والے عالم دین کو دین سے دوری کا سبب بتانا شعور کی معراج سمجھا کرتے تھے۔
لیکن پھر خدا نے شعور عطا کیا، تہذیب جدید کے فہم سے کچھ حصہ ملا تو پھر زبان حال سے پکار اٹھے
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
ہاں، ہمارا تعلق اس جاتی سے ہے، جن کو عام طور پر اپنی مجلس میں بیٹھنے نہیں دیا جاتا، لیکن اس پر مطمئن ہیں۔
ہاں ہم وہ ہیں جو پرانی اخلاقیات مانگتے ہیں۔ ہم اس گروہ عاشقاں سے ہیں، جو کو حکم خدا کے بعد کسی قسم کی تاویل کی ضرورت نہیں رہتی، ہم سے خدا کہتا ہے فلاں سے نفرت کرو تو ٹھوک بجا کے نفرت کرنے لگتے ہیں، ہمیں خدا کسی سے محبت کا کہے تو عمل گو نا کر سکیں مگر اس کی حقانیت ذہن و دل میں واضح رہتی ہے۔ ہم وہ ہیں، جنہیں تہذیب مغرب سے، اس کے مظاہر سے، اس کے ما بعد الطبیعات سے، اس کے فلسفوں سے اتنی ہی چڑ ہے۔ جتنے وہ برے اور انسانیت کے لئے ز،ہر قاتل ہیں۔