جدید موبائلز کی تباہ کاریاں (قسط سوم) تحریر: رانا بشارت محمود:

0
44

امید ہے آپ نے اِس سلسلے کی پہلے شائع ہونے والی دو اقساط ضرور پڑھی ہوں گی، جو کہ جدید سمارٹ سسٹم موبائل فونز کے ہماری نوجوان نسل کی زندگیوں پہ پڑنے والے اثرات کے بارے میں تھی۔ تو چونکہ یہ بھی اُسی سلسلے کی تیسری قسط ہے تو آئیے پھر اُسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔

~ ریڈیو، کیمرے، ٹیپ رکارڈر و کیسٹ، وی سی آر، چراغ، موم بتی، لال ٹین و ٹارچ لائیٹیں اور وقت دیکھنے کے لیے ہاتھ پہ باندھی جانے والی گھڑیوں سمیت سب کچھ گُم سا ہو کے رہ گیا ہے۔

تو اِس سے پہلے شائع ہونے والی پہلی دو اقساط میں بھی موجودہ دور میں اِن جدید سمارٹ سسٹم موبائل فونز کے عام ہو جانے کے بعد ہماری زندگیوں پہ پڑنے والے جن اثرات کا ذکر کیا گیا تھا، اُن کے ساتھ ساتھ یہ جدیدیت بھی آگئی ہے کہ جو پہلے ہماری استعمال کی جانے والی بہت سی چیزیں تھیں، جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، یا تو پہ سب تقریباً ختم ہی ہو گئی ہیں یا پھر اگر کچھ موجود ہیں بھی تو وہ صرف اس وجہ سے کہ ان میں جدیدیت لائی گئی ہے۔

عام طور پہ دیہاتوں اور قصبوں میں شام ہونے کے بعد (چوپال، دارا، ڈیرہ یا حویلی کے نام سے مشہور جگہیں) جہاں بہت سے لوگ اکٹھے ہو کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ پھر ان کا آپس میں حالاتِ حاضرہ پہ گفتگو کرنا، جس کے ساتھ ساتھ ہُکا بھی پیا جاتا تھا اور ریڈیو پہ خبریں اور طرح طرح کے پروگرام بھی سُنے جاتے تھے۔ یہاں تک کے اگر پچیس تیس سال پہلے کے دور کو دیکھیں تو بڑے شہروں میں بھی کئی جگہ پر یہی طریقہ عام ہوا کرتا تھا۔ اور ریڈیو پہ خبریں اور پروگرام سننے کے بہانے سب کا اکٹھے ہو کر مِل بیٹھ جانا بھی ایک دل کو موہ لینے والا منظر پیش کر رہا ہوتا تھا۔

اور پھر تصویریں بنانے یا بنوانے کے لیے استعمال کئے جانے والے مختلف کمپنیوں کے کیمرے جو کہ تب بہت کم لوگوں کے پاس ہوا کرتے تھے اور پھر تصویریں بنوانے کی غرض سے دیہاتوں اور قصبوں میں رہنے والوں کا ( جن کے قریب یہ سہولت موجود نہیں ہوتی تھی) اپنے نزدیکی شہروں میں موجود فوٹو سٹوڈیوز میں جانے والا بھی ایک سہانا دور ہوا کرتا تھا۔

پھر اسی طرح سے اپنی یا کسی کی آواز کو ریکارڈ کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈر کا استعمال کرنا بھی ایک انوکھا تجربہ ہوا کرتا تھا جن میں کیسٹ ڈالی جاتی تھی، اس کے بعد وی سی آر جو اُس وقت فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کے لیے سب سے جدید ٹیکنالوجی مانی جاتی تھی۔ ان کا استعمال بھی ایک شاندار تجربہ ہوتا تھا۔

اِس کے بعد اب آگے چلیے تو آپ کو بتلاؤں کہ اگر ہم زیادہ نہیں تو صرف تین عشرے ہی پیچھے چلے جائیں تو تب تک پنجاب کے بھی بہت سارے علاقوں میں بجلی نہیں ہوا کرتی تھی، تو وہاں کے طلباء پھر اپنا سبق پڑھنے کے لیے یا پھر گھر والے روشنی حاصل کرنے کی غرض سے رات کے وقت موم بتی، چراغ یا لال ٹین اور پھر بجلی کی سہولت آ جانے کے بعد تک بھی ٹارچ لائٹیں استعمال کیا کرتے تھے۔ (البتہ! اس اکیسویں صدی میں بھی جنوبی پنجاب کے کئی علاقے، اندرونِ سندھ کے بھی بہت سے علاقے، پختونخواہ کے قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں تو اب بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچائی جا سکی ہے)۔

اور پھر اُس کے بعد تب وقت دیکھنے کی خاطر مختلف اقسام کی گھڑیوں کا بھی کلائیوں پہ باندھنے کا ایک شاندار دور ہوا کرتا تھا۔ اور اُس دور میں جس کے پاس گھڑی ہوتی تھی تو اُس کی بھی اپنے حلقہ احباب میں بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی، کیونکہ دوسروں کو اُس سے وقت جو پوچھنا پڑتا تھا۔ (البتہ! ابھی بھی گھڑی پہننے کا بہت رواج ہے لیکن اب یہ صرف فیشن کی حد تک ہی رہ گیا ہے اور وقت دیکھنا غرض بالکل بھی نہیں رہا)۔

اور اب اگر اِس کا دوسرا رُخ دیکھا جائے تو اِن سب مندرجہ بالا چیزوں کو تیار کرنے والی کمپنیاں، پھر اِن کو بیچنے والے دوکاندار اور پھر اِن کے خراب ہو جانے پہ تصلیح کرنے والے مکینک تک تقریباً سب کے سب لوگ بے روزگار بھی ہوئے ہیں۔

اور اس سب کے پیچھے صرف اور صرف ایک یہ ہی وجہ ہے، اور یہ کہ اِن جدید سمارٹ سسٹم موبائل فونز کے عام ہو جانے کے بعد یہ سب کچھ اب پرانے وقتوں کی طرح ماضی کا حصہ ہی بن کے رہ گیا ہے۔ اور زیادہ تر یہ سبھی چیزیں اب صرف فلموں، ڈراموں، کہانیوں اور تصویروں تک ہی رہ گئی ہیں، اور وہ بھی جن میں پرانے دور کا دِکھانا مقصود ہو اُن میں یہ چیزیں آثارِ قدیمہ کی صورت میں دکھائی جاتی ہیں۔

اور اب آخر میں! میں یہ کہوں گا کہ دوستو کیونکہ اب اِس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہمیں اِن سب چیزوں کی بالکل بھی ضرورت نہیں رہی، لیکن اگر ہمارے پاس ان میں سے کچھ چیزیں موجود ہیں تو اُن سب چیزوں کو اپنا قیمتی ورثہ جانتے ہوئے انہیں سنبھال کے حفاظت کے ساتھ رکھیں۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ہماری اُن پرانے وقتوں کی چیزوں کو دیکھ اور پرکھ سکیں ناکہ وہ یہ سب صرف فلموں اور ڈراموں میں ہی دیکھ کر حیران ہوا کریں۔

اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

وآخر دعونا أن الحمدلله رب العالمين

دُعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ شکریہ

Author Name:
Rana Basharat Mahmood – Twitter Handle: @MainBhiHoonPAK

Leave a reply