جدید ٹیکنالوجی کا دور تحریر:شھریار سیالوی

0
41

آج کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہیں پر حلال و حرام کی تمیز نہ کرنا بھی یے۔جس سے ہمارا معاشرہ مزید تباہی و بربادی کیطرف جارہا ہے۔لوگ اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کھوچکے ہیں۔بس اپنی خواہشات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ان خواہشات کی تکمیل کیلئے ہر جائز و ناجائز رستہ اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔اچھے اور برے کی تمیز میں فرق کئے بغیر انسان دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبتا چلاجارہا ہے اور انسان گمراہی کے اندھیروں کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے جن کے پورا ہونے پر انسان قلبی سکون حاصل نہیں کرپاتا اور اسے زندگی ادھوری ادھوری سی لگتی ہے۔انسان جب نفس کا غلام بن جائے تو اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔یہ نفس ہی ہے جو انسان کو بار بار اکساتا ہے کہ اس شخص کے پاس تو یہ ہے اور تمہارے پاس کیا ہے؟تمہارے پاس تو کھانے کیلئے اچھا طعام تک نہیں۔کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارے پاس وافر مقدار میں اشیاء خورد و نوش ہوں اور آسائشوں سے مزین گھر ہو۔کیا تم پرسکون اور معیاری زندگی نہیں گزارنا چاہتے؟جب یہ خیال انسان کے دماغ پر سوار ہو تو وہ اسکو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں نکل پڑتا ہے۔اس کی راہ میں سیدھا رستہ بھی آتا ہے اور الٹا بھی یہاں سیدھے سے مراد حلال کا رستہ اور الٹے سے مراد حرام کا رستہ ہے اور جب انسان کو اپنے رستے کا تعین کرنا ہوتا ہے تو اسے اپنے بےلگام نفس کا اکسانا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔جس کی بنا پر وہ سیدھے رستے کے بجائے اپنے قدم الٹی جانب موڑ لیتا ہے۔

حرام و حلال کی تمیز ہر باشعور انسان بالخصوص ہر مسلمان پر فرض ہے۔اللہ رب العزت نے انسانی زندگی کے ہر معاملات میں حرام و حلال کا فرق رکھا ہے۔ہمارے معاشرے میں لوگوں نے روزی اور مال کی حد تک حلال و حرام کا نظریہ رکھتے ہیں اور اسی کی افادیت پر زور دیتے ہیں۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہےکہ جو رزق و معاش حلال ذریعے سے کمایا ہو وہ انسان کے جسم کے اندر سرایت کرکے آپکی ذات کا حصہ بن جاتی ہے اور حرام کے ذرائع سے آئی ہوئی آمدنی نہ تو جسم کا حصہ بنتی ہے نہ تو ذات کا۔آجکل اولاد کی نافرمانی کا رونا رویا جاتا ہے کہ ہمارے بچے خیال نہیں رکھتے ہمارا اور ہمیں وقت نہیں دیتے۔وہ بچہ کیا اطاعت اور خدمت کے اصولوں سے روشناس ہوگا۔جس نے پیدائش کے بعد آنکھ کھولتے ہی حرام لقمے سے آغاز کیا۔اس کی رگوں میں حرام کی آمیزش کرنیوالے یہ بھول گئے تھے کہ کل کو جب بیج پھل پھول کے افزائش پائے گا تو اس کی آبپاری ویسے ہی ہوگی جیسے اس میں سختی اور نرمی ہوگی۔شاخ جتنی لچک دار ہوگی اتنی ہی آسانی سے مڑجاتی یے اس پر کسی قسم کے موسم کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہی لچک اگر بچے کے خون میں ہوگی تو بچہ اپنے والدین سے رخ نہیں موڑے گا۔اس میں سب سے اہم بات جو ہے وہ "بنیاد” ہے۔انسان کی بنیاد جتنی مضبوط اور پائیدار ہوگی اتنی ہی سب کیلئے سودہ مند ہوگی۔اس کے برعکس بنیاد اگر کھوکھلی ہوگی تو وہ کھوکھلاپن اس کی زندگی کے ہر معاملے میں آویزاں ہوگا۔جس کی بناء پر ایسے افراد نہ تو معاشرے کی ترقی کا حصہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

ان کھوکھکی اور کمزور بنیادوں کی ضمانت کون دے گا۔ان کو پالنے والے یا پھر وہ لوگ خود؟حلال رزق اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔حلال میں اللہ نے بڑا سکون رکھا ہے۔اگرچہ تھوڑا قلیل ہوتا ہےلیکن برکت بہت ہوتی ہے۔محنت اور حلال آمدنی حرام کے ہر ایک لقمے سے معتبر ہوتی ہے۔حلال کی جو اہمیت ہے اس میں رتی برابر بھی شک کی گنجائش باقی نہیں لیکن ہماری زندگی میں کچھ امور ایسے بھی ہیں جہاں اللہ نے حلال و حرام میں فرق واضح رکھا ہے اور حدود متعین کی ہے۔جو بھی اس حد کو پار کرتا ہے تو وہ حرام کے زمرے میں آجاتا ہے اور جو کام متعین شدہ حدود کے اندر رہ کر کیا جائے اس کو حلال تصور کیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں اخلاق و کردار بھی اچھے اور برے کے طور پر کسی کو متعارف کروایا جاتا ہے۔اب یہاں غور کیا جائے تو ذہن میں حلال و حرام ابھر کے سامنے آجاتے ہیں۔اصل میں حقیقت یہ ہے کہ ہم گہرائی میں جانا پسند ہی نہیں کرتے اور ان سب الفاظوں کا استعمال بھی ضرورت کے تحت کرتے ہیں۔اپنے ذہن کو اس بات کی غور و فکر کرنے کی عادت ضرور ڈالیں کہ کیا اچھا ہے کیا برا؟ حلال و حرام کے کس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ان صورتوں میں انسان کی قابلیت اور عقلی معیار کے پیمانے واضح ہوتے ہیں۔جہاں سوچ اور فکر میں اتار چڑھاو کی کمی ہوگی وہی عمل میں کمزوری ظاہر ہونے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں اور انسان درست راہ سے اندھی تقلید میں گمراہ ہو جاتا ہے۔

بعض اوقات ہم دوسروں کیلئے راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں اور انکو تکلیف دیتے ہیں۔یہ سب اعمال ہمارے خیالات کا واضح اظہار ہوتا ہے جو عملی زندگی میں کسی کیلئے مشکلات کا باعث بنتا ہے اور یہی خیالات حرام کے زمرے میں آتے ہیں۔اس کے برعکس جب کوئی خیال کسی دوسرے انسان کو آسانیاں اور خوشگوار ماحول فراہم کرتا ہے تو وہ حلال کے زمرے میں آتا ہے۔ان سب خیالات کا کنڑول انسان کے اپنے اوپر مخصر ہے۔اگر مثال میں یہ دوں کہ اگر ایک انسان کی نگاہ میں غلاظت ہو اور شرم و حیا کا عنصر موجود نہ ہو تو یہ سوال سیدھا اس کی سوچ پر ہوگا۔لہذا یہ چیز انسان پر مخصر ہے کہ جب چاہے جسطرح چاہے درست سمت کیطرف موڑ لے اور جب چاہے غلط سمت کیطرف موڑ لے۔بعض اوقات یہ سوچ کا بہاو بہت بڑے نقصان کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اور نقصان کسی بھی قسم کا ہو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،جانی ہو یا مالی یہ سب نقصانات حرام کے دائرے میں آئیں گے۔اللہ ہم سبکو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے (آمین)

Leave a reply