ایمان کی طاقت:جہاں آپ کا رزق لکھا ہو کو مل کر ہی رہے گا بقلم:عمر یوسف

0
33

ایمان کی طاقت

عمر یوسف

وہ میرے سامنا بیٹھا تھا ۔۔۔ ادارے میں اسے نکالے جانے کی چہ مگوئیاں ہورہی تھیں ۔۔۔ اسے وقتا فوقتا اس کے دوست بتاتے ۔۔۔ کہ آج تمہارے بارے میں یہ بات ہوئی ۔۔۔ آج یہ ہوا ۔۔۔ مختلف باتیں سن سن کر اسے یقین ہوگیا کہ وہ زیادہ دیر یہاں نہیں ٹھہرنے والا ۔۔۔ جاب چلی جانے کا غم ۔۔۔ عموما انسان کو اذیت و کرب میں مبتلاء کردیتا ہے ۔۔۔ اور انسان نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتا ۔۔۔ سوچ منتشر ہوجاتی ہے ۔۔۔ اور مستقبل کے خدشے آگھیرتے ہیں ۔۔۔ نئی جاب کیسے حاصل کی جائے یہ فکر بھی دامن گیر ہوتی ہے ۔۔۔ مختلف وسوسے جنم لیتے ہیں اور انسان کے چہرے سے رونق غائب ہوجاتی ہے ۔۔۔ اس کی کیفیت بھی ایسے ہی بنی ہوئی تھی ۔۔۔ میں خود پریشان تھا ۔۔۔ اور دعا گو تھا کہ معاملات زیادہ نہ بگڑیں ۔۔۔ وہ مجھ سے مخاطب ہوا ۔۔۔ اور پرعزم آواز کے ساتھ بولا ۔۔۔

عمر صاحب ۔۔۔ میرا ایمان ہے کہ جہاں آپ کا رزق لکھا ہوا ۔۔۔ وہ آپ کو مل کر ہی رہے گا ۔۔۔ کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا ۔۔۔ اور جہاں سے نہیں ملنا وہاں سے کبھی نہیں ملے گا ۔۔ کسی کا باپ بھی نہیں لے کے دے سکتا ۔۔۔

یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد وہ پرسکون دکھائی دیا ۔۔۔ جیسے ہی اس کے ضمیر نے اس کے اندر موجود ایمانی طاقت کے ہونے کا احساس دلایا ۔۔۔ اس کے وساوس جاتے رہے ۔۔۔ ذہنی انتشار تھم گیا ۔۔۔ مستقبل کے خدشے اور فکریں دم توڑ گئیں ۔۔۔ خدا کے ہونے کے احساس نے اسے فرحت بخشی ۔۔۔ اللہ پر توکل نے اس چہرے کو ترو تازہ کردیا ۔۔۔

بعد میں جو بھی حالات پیش آئے میرے سامنے تھے ۔۔۔ اس کے معاملات بگڑتے گئے اور بالآخر اسے مستعفی ہونا پڑا ۔۔۔ اپنے استعفی کو روکنے کے لیے اس نے کافی ہاتھ پاوں مارے لیکن بے سود تھے ۔۔۔ وہاں اس کا رزق نہیں تھا ۔۔۔ تو بڑے بڑے باپوں کی سفارش نہیں چلی ۔۔۔ لیکن چند ہی ہفتوں کے بعد اسے معمولی تگ و دو کے بعد پہلے سے بہتر جاب ملی ۔۔۔ اور تنگی کے بعد آسانی آگئی ۔۔۔

یہ سب کچھ سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ بگڑے ہوئے معاملات تو بعد میں درست ہو ہی جاتے ہیں لیکن خدا پر عدم توکل کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو شروع میں بھی کافی ذہنی صدمے کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔۔۔ جو بلا شبہ انتہائی کربناک دورانیہ ہے ۔۔۔ لیکن خدا پر یقین کامل انسان کو اس ابتدائی صدمے سے بچاتے ہوئے حیات جاوداں بخشتا ہے ۔۔۔

ایمان کی طاقت بقلم: عمر یوس

Leave a reply