ٹرمپ کے ثالثی بشارہ بہبہ کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ’چند دنوں میں ممکن‘ ہے، جبکہ بشارہ بہبہ نے مصری اور قطری ثالثوں کے ساتھ مل کر یہ ثالثی کی ہے-

مصری چینل ’الغد‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے بعد اب غزہ ایک بار پھر خطے کی ترجیح بن چکا ہے، جس سے معاہدے کے امکانات روشن ہوئے ہیں تاہم، ایک سینئر عرب سفارتکار نے ٹائمز آف اسرائیل سے بات کرتے ہوئے اتنی امید ظاہر نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل بدستور جنگ کے مستقل خاتمے سے متعلق واضح طور پر کوئی وعدہ نہیں کرنے سے انکار کررہا ہے، اسرائیل کی پیشکش یہ ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کو عارضی جنگ بندی کے دوران مرحلہ وار کیا جائے گا، اگرچہ ثالث بشارہ بہبہ نے واضح کیا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کا اسرا ئیل اور حماس تنازع سے براہ راست تعلق نہیں ہے، تاہم قطری اور مصری ثالث اب اسرائیل-حماس تنازع کو ختم کرنے کے لیے زیادہ سنجیدہ اور پُرعزم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اختلافات بہت محدود رہ گئے ہیں اور اصل اختلاف صرف ایک بات پر رہ گیا ہے ، جو غالباً اس شق سے متعلق ہے کہ عارضی جنگ بندی کے اختتام پر اگر مستقل جنگ بندی پر اتفاق نہ ہوا تو کیا اسے خود بخود توسیع ملے گی یا نہیں، جیسا کہ حماس مطالبہ کر رہی ہے۔

بشارہ بہبہ فی الحال مذاکرات کی پیشرفت کے حوالے سے مصر میں موجود ہیں، اس دوارن انہوں نے حماس کے سینئر رہنما غازی حمد سے ملاقات کی تاکہ باقی اختلافات پر بات چیت کی جاسکے یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق کئی تجاویز زیر غور ہیں جن میں کچھ مکمل اور کچھ جزوی نوعیت کی ہیں ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں تیزی لائی جائے، کیونکہ گزشتہ ماہ کے دوران اسرائیل روزانہ اوسطاً صرف 60 ٹرک داخل ہونے دے رہا ہے جو کہ اقوام متحدہ کے مطابق ضرورت سے کہیں کم ہے۔

Shares: