جنوری سے پہلے ٹرمپ،اسرائیل اور سعودی عرب کا کھیل تیار، مبشر لقمان کی زبانی تہلکہ خیز انکشافات

0
32

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مشبر لقمان نے کہا ہے کہ 20 جنوری سے پہلے ٹرمپ۔ اسرائیل اور سعودیہ عرب مل کر کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں؟؟؟ چین کا بلاک، امریکی بلاک کی نسبت دن بہ دن کیسے مضبوط ہو رہا ہے؟؟؟

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ اسے باقی تمام ممالک پر برتری حاصل ہو۔ دوسری طرف سعودیہ عرب بھی کبھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ مسلم ممالک میں اس سے بڑھ کر کوئی اور ہو خاص کر ایران۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ سعودیہ عرب اور اسرائیل نے ہر طرح کے معاملے میں ٹرمپ کا ساتھ دیا۔ جس کے بدلے ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ مختلف عرب ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروایا گیا۔ ایران کے ساتھ معاہدے ختم کرکے اس پر پابندیاں لگائی گئیں۔ اور چونکہ ٹرمپ کے ان دونوں ممالک کے سربراہوں محمد بن سلمان اور نیتن یاہو کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے اس لئے تینوں نے مل کر خوب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کیا یہاں تک کہ ٹرمپ کو الیکشن کمپئین میں بھی پوری سپورٹ دی گئی۔ لیکن قسمت کی بات ہے کہ اتنی سپورٹ کے باوجود ٹرمپ الیکشن میں کامیابی نہ حاصل کر سکے۔ لیکن ٹرمپ کے پاس ابھی بھی بیس جنوری تک کا ٹائم ہے جب تک با قاعدہ طور پر اقتدار جو بائیڈن کے حوالے نہیں ہوتا اس وقت تک ٹرمپ ہی all in all ہے اس لئے اسرائیل اور سعودیہ عرب کی یہ کوشش ہے کہ وہ ٹرمپ کے جانے سے پہلے ہی اس سے وہ کام کروالیں جس کے لئے وہ اس کو سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ اس لئے اب بہت زیادہ چانسز ہیں کہ امریکہ ایران کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھا سکتا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اور یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے اس کا اظہار خود صدرڈونلڈ ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی آفیسرمارک اسپر نے فاکس نیوز کے ایک انٹرویو میں کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت اقتدارختم ہونے سے پہلے ایران کے خلاف بڑا جنگی ایکشن لینے جارہے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت جاتا تو شاید یہ حملہ ابھی نہ کیا جاتا لیکن اب الیکشن نتائج کے بعد یہ پلان کیا گیا ہے کہ جو بائیڈن کو اقتدار منتقل ہونے سے پہلے ایران کے اٹیمی پروگرام کو ٹارگٹ کرتے ہوئے یہ حملہ کیا جائے گا۔ کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ آنے والی جو بائیڈن کی حکومت دنیا میں ایسی کسی لڑائی یا جنگ کی حمایت نہیں کرے گی بلکہ ایک متوازن عالمی پالیسی لے کر آئے گی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ مارک اسپر نے اپنے اس انٹرویو میں بیگن ڈاکٹرائن کا بھی ریفرنس دیا ہے اس ڈاکٹرائن کے مطابق دشمن کو اس کی تیاری سے پہلے ہی جا پکڑنا چاہیے تاکہ وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر حملہ نہ کر سکے۔ اور ایران جس نے یورینیم افزودہ کرنے کی اپنی صلاحیت بہت بڑھا لی ہے۔ جا بائیڈن کے آنے کے بعد ایران کے ساتھ دوبارہ 2015 جیسا جوہری معاہدہ کر کے اٹیمی پروگرام کو محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس ایران نیو کلیئر ڈیل کو ڈونلڈٹرمپ کے دور میں ختم کر کے ایران پر پابندیاں لگائی گئیں تھیں جس کی حمایت عرب ممالک نے بھی کی تھی۔ اب اگرجوبائیڈن کے آنے سے ایران دوبارہ کسی ڈیل کا حصہ بن کر باقی دنیا کے ساتھ چل پڑتا ہے تو اسرائیل کے لیے اس پر حملہ کرنا اور اسے کمزور کرنا ممکن نہیں رہے گا اس لئے اسرائیل اور سعودیہ عرب ہر طرح سے ٹرمپ کو اکسا رہے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح اقتدار ختم ہونے سے پہلے ایران پر حملہ کرے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے عزائم کو اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ چند روز پہلے جب ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کا دورہ کر رہے تھے انہی دنوں ایران سے متعلق امریکی مشیر Elite Abraham سعودی عرب میں تھے جہاں شاہ سلمان نے اس موقع پر دنیا کو پیغام دیا کہ ہم ایران کو اٹیمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتےاور ہمیں ایران کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ سعودیہ کے بعد وہ یروشلم پہنچے جہاں امریکی سیکرٹری خارجہ Mike Pompeo بھی تین روزہ دورے پر موجود تھے۔ اور ان تمام ملاقاتوں کا مقصد صرف اور صرف ایران تھا۔ اس کے علاوہ ان ممالک کے آرمی چیفس کے درمیان بھی آن لائن بات چیت جاری ہے۔ اور یہ تمام خبریں خود اسرائیلی میڈیا رپورٹ بھی کر رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عرب ممالک ایران کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دینے کے لیے مکمل تیار ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یروشلم پوسٹ میں صدر ٹرمپ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امریکی دفاعی عہدے داروں میں جو رد وبدل ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی گئی ہے وہ ایسے ہی کسی بڑے اقدام کی نشاندہی کرتا ہے جس کے ذریعے وہ جو بائیڈن کے لیے حکومت میں آتے ہی عالمی سطح کے مسائل چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ طے ہے کہ یا تو امریکا خود ایران پرحملہ کرے گا یا پھر اسرائیل کو ایسا کرنے کے لئے گرین سگنل دے گا۔ جبکہ سعودیہ عرب اور اسرائیل کے درمیان پہلے ہی اس حوالے سے تمام معاملات طے پا چکے ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اور اس وقت حالات جتنے خراب ہو چکے ہیں ان کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل نے ایران میں ایئر سٹرائیک بھی کی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق 1998 میں امریکی ایمبسی پرحملے کے ماسٹر مائنڈ اور القائدہ کے اہم ترین لیڈر ابو محمد البصری کو تہران میں ہلاک کردیا گیا ہے اور یہ سب دو اسرائیلی ایجنٹس کے ذریعے کروایا گیا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کو ایران اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھی غصہ ہے جس کی وجہ سے وہ بھارت کے ساتھ مزید روابط بڑھا رہا ہے۔ سعودی عرب کومسلسل ملک کے اندر ہونے والے دہشت گرد حملوں کا بھی سامنا ہے جس نے سعودی حکمرانوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن ایران دشمنی اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے محمد بن سلمان امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کرجس خطرناک عالمی کشیدگی کا حصہ بننے جا رہے ہیں اس کے اثرات ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان کو بھی برداشت کرنا پڑیں گی جہاں پہلے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بھارت اور سعودی عرب کی سرمایہ کاری کو پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات خراب کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جو پاکستانیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن پاکستان کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ چین کی سرپرستی میں جو بلاک بن رہا ہے وہ دن بہ دن مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ چین نے 15 ایشیائی ممالک کے دنیا کے سب سے بڑے فری ٹریڈ معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔
Regional comprehensive economic partnrship آر سی ای پی میں چین، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سمیت دنیا کی معیشت کے 30 فیصد حصے دار اور جنوب مشرقی ایشیا کے 10 ممالک شامل ہیں۔ جو تمام ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے کورونا وائرس سے متاثرہ معیشت کو بحال کرنے کی جانب ایک کوشش ہے۔ اس معاہدے کے تحت مصنوعات کی لاگت کو کم کیا جائے گا اور کمپنیوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں گے تاکہ بلاک کے اندر آسانی سے برآمدت کی جاسکیں کیونکہ ہر ملک کی مختلف ضروریات ہیں۔ ساتھ ہی یہ معاہدہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بھی سپورٹ کرے گا جس سے پاکستان کا مستقبل بھی جڑا ہوا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب امریکہ اور بھارت دونوں ہی اس میں شامل نہیں ہیں۔ جس سے خطے میں چین کی تجارتی بالادستی اور بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ اور ایک اور پراجیکٹ جو چین کی بالادستی میں بہت اہم ہے وہ چین سیچوان تبت ریلوے پراجیکٹ ہے جس پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے یہ پراجیکٹ اروناچل پردیش کے ساتھ بھارت کی سرحد کے کافی قریب ہے۔ دراصل چین اروناچل پردیش کو جنوبی تبت کا حصہ سمجھتا ہے جبکہ بھارت اسے مسترد کرتا ہے۔ چین کے صدرشی جن پنگ کا کہنا ہے کہ یہ ریلوے لائن سرحدی علاقوں میں استحکام کے لیے بہت اہم ہے اس پورے منصوبے کی لاگت 47.8 ارب ڈالر ہے اس ریلوے لائن سے تبت کے دارالحکومت سیچوان کے دارالحکومت چینگڈو کا سفر 13 گھنٹے کا ہو جائے گا جو ابھی 48 گھنٹے کا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ جیسے ہی چین یہ پراجیکٹ مکمل کرلے گا اس کے بعد وہ با آسانی اپنے میزائل بھارت کی سرحد تک لا سکتا ہے جس کے بعد اسے بھارت کے خلاف کسی کشیدگی میں ایٹمی ہتھیاروں کی بھی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ وہ میزائل سے بھی نشانہ لگا سکے گا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ویسے تو ایل اے سی کے قریب کے علاقوں میں بھارت بھی اپنا بھاری بجٹ خرچ کرکے انفراسٹرکچر پر بہت کام کر رہا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ٹرمپ کے جانے کے بعد صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہونے والی ہے۔ ایک تو اب امریکہ کی بھی پالیسیاں چین سے ہٹ جائیں گی دوسرا یہ کہ جس طرح چین اپنے اتحادی ممالک کو مضبوط کرکے ایک الگ بلاک بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے تو اس کے بعد بھارت اس خطے میں تنہائی کا شکار ہو جائے گا اور عالمی سطح پر بھی اسے اب پہلے کی طرح امریکہ کا ساتھ نہیں ملے گا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اب وہ ممالک جو کہ امریکی بلاک کا حصہ رہے ہیں امریکہ میں تبدیلی کے بعد ان کے لئے معاشی اور سفارتی سطح پر مشکلات آنے والی ہے۔ امریکی بلاک کا مستقبل طے کرنے کے لئے صدر ٹرمپ کے اقتدار کے یہ چند دن بہت اہم ہیں ان میں یا تو کوئی بہت بڑی کشیدگی جنم لے سکتی ہےجس میں زیادہ چانسز یہ ہیں کہ ایران کے ساتھ کشیدگی ہو گی ورنہ پھر بیس جنوری کے بعد معاملات سفارتی سطح پر بہت زیادہ بدل جائیں گے اور امریکہ کے اتحادیوں یعنی اسرائیل، سعودیہ عرب اور بھارت کو دوبارہ سے اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

Leave a reply