جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم بقلم: عبیرعطا ء الرحمن علوی،لاہور

0
35

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جشن میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہم…

عبیرعطا ء الرحمن علوی،لاہور

ڈھول کی تھاپ پر زوروشور سے بھنگڑڈالا جا رہا ہے…جلوس نکالے جارہے ہیں، جھنڈیاں لگ رہی ہیں، چراغاں کیا جارہا ہے، غرض کہ ہر طرح سے بازاروں کو سجایا جا رہا ہے… کیوں جی ہم یہ سب اہتمام کیوں کررہے ہیں… کریں بھی کیوں نہ؟کہ آج تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے ا ور ہم اس کو زوروشور سے سیلیبریٹ کریں گے ناں!… یکم ربیع الاول سے ہی گلی اور محلے کے ہمارے بچے ٹوپیاں پہنے اور برتن ٹھائے راستوں میں کھڑے ہیں اور ہر آنے جانے والے سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کو سیلیبریٹ کرنے کے لئے اس کو بھر پور انداز سے انجوائے کرنے کے لئے پانچ پانچ یا دس دس روپے مانگتے ہیں۔ پھر ۱۲ ربیع الاول کو ہم اس جمع شدہ رقم سے آپ کا میلاد مناتے ہیں۔ راستہ روک کر ہم یہ بھیک نما چندہ مانگتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ضرورت سوال کرنے کی سخت وعید فرمائی: آپ نے ارشاد فرمایا:’’ جس نے بلا ضرورت سوال کیا قیامت کے دن اس کے چہرے پہ گوشت کا ایک لوتھڑا بھی نہیں رہے گا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’مانگ کر کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھر رہا ہے‘ خواہ تھوڑے سے بھر لے یا زیادہ سے‘‘۔

لیکن اس بات کی پرواہ کیۓ بغیرہم جلوس نکالتے ہیں ، محفلیں منعقد کرواتے ہیں، سبیلیں لگاتے ہیں، جانوروں کی سہرا بندی کرتے ہیں، ناچ گانا کرتے ہیں، آتش بازی ،ہلڑ بازی،منہ کے میٹھے کے لئے شیرینی بھی بانٹتے ہیں، منچلے نوجوان دن کے وقت پگڑیاں باندھ کر نقلی داڑھی مونچھیں لگائے، گلی محلوں میں باجے اور شہنائیاں بجاتے ہیں۔ جب اندھیرا پھیلنے لگتا ہے تو محفلیں اور ناچ گانے شروع کردیتے ہیں اور روضۃا لرسول کے ماڈل، کھلونے ااور پہاڑوں کی نمائش لگتی ہے جسے مرد اور عورتیں بلا امتیاز دیکھتے ہیں ۔ اور ان خرافات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں…

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت کا گزشتہ آسمانی کتابوں میں بھی ذکر ہے ، کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم بازاروں میں شور کرنے والے نہیں، لیکن آج ہم آمد رسول کا جشن اور بازاروں میں ہلڑ بازی، آتش بازی، ناچ گانا، گھوڑوں اورٹرالیوں پر جلوس، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا… ! ہم اس کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں! یہ خیر الانام کی آمد کی خوشی ہے!

پھر ہم گلیوں،گھروں کو مختلف طریقوں سے آراستہ و مزین کرتے ہیں… ادھر نظارہ کیجیئے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے گھر سے واپس لوٹ آئے ، کیوں؟ ابو داؤد میں حدیث موجود ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنے داماد حضرت علی بن ابی طالب کے گھر تشریف لائے، اور دروازے سے ہی پلٹ گئے، حضرت علی جب گھر پہنچے ،حضرت فاطمہ نے اس بات کا ذکر کیا(کہ ابا جان گھر آئے تھے اوردروازے سے ہی واپس تشریف لے گئے ہیں) حضرت علی رضی اللہ عنہ فورا دربار نبوت میں پہنچتے ہیں اور واپسی کا سبب پوچھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دروازے پہ(قیمتی) ریشمی پردہ دیکھا ہے تو میں نے کہا: ’’میرا دنیا کی (سجاوٹوں اور آرائشوں ) سے کیا تعلق ہے‘‘؟اس لیئے میں پلٹ آیا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بابت حضرت فاطمہ کو والد گرامی کی واپسی کا سبب معلوم ہوا تو آپ پیارے ابا جان کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کرتی ہیں: آپ اس پردے کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قیمتی ریشمی پردہ مدینے کے فلاں گھر والوں کو دے آئو (تا کہ وہ سے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کریں)۔

غورکریں! وہ پیغمبر جو ایک قیمتی کپڑاریشمی پردہ دیکھ کر اپنے پیارے داماد اور پیاری لخت جگر کے دروازے سے پلٹ آئے، وہ ہمارے سجے ہوئے بازاروں اور گھروں میں کیسے آئیں گے …!!

میوزک‘ موسیقی‘ بے پردگی اور مردوزن کاآزادانہ اختلاط …!! آہ ! کس قدراسلام سے دور ہیں ہم …؟
اور اس اتنے بڑے ظلم کو کہتے ہیں کہ بھئی یہ پیغمبر کی آمد کا جشن ہے…، سارا دن ڈیک بجتے ہیں‘ اور میوزک موسیقی کی گندی آواز کے ساتھ ناچتے ہیں ، مصنوعی پہاڑیاں سجائی ہوتی ہیں اور وہاں رات گئے تک بے پردہ عورتوں اور بے غیرت نوجوانوں کا ہجوم رہتا ہے ، یہ تمام شرمناک کام ہم اپنے پیارے پیغمبر کی آمد کی خوشی میں کرتے ہیں جو اس کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھا جس کے چہرے کو کبھی آسمان نے بھی نہ دیکھا ہو۔

مشعل برادر جلوس بھی ہمارے ہاں پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہوتے ہیں ۔یہ آتش پرستوں کی مشابہت ہے ۔ آتش پرست(مجوسی) وہ بد ترین کافر ہیں جنہوں نے ہمارے پیارے نبیﷺ کا خط مبارک شہید کر دیا تھا، آج ہم پیغمبر کی آمد کی خوشی میں ان گستاخان رسالت کی مشابہت کرتے ہیں اور مشعل برادر جلوس نکالتے ہیں’ جبکہ ہمارے پیارے پیغمبر نے کفار کی مشابہت سے تاکیدًا منع فرمایا ہے اور یہ وعید بھی سنائی: ’’جو کسی قوم کی مشابہت کرے گاوہ انہی میں سے ہوگا‘‘۔(ابو داؤد)۔

یہ سب کیا ہے، تو یہ ہمارا ا پنے پیارے پیغمبر سے محبت کا ثبوت ہے ۔۔۔۔!!!!! ہم ان خرافات میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں اور اس لئے جو ان فضولیات میں حصہ نہ لے ہم اسے کہتے ہیں ’’گستاخ‘‘ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اور کہتے ہیں کہ اسے اپنے نبی کی پیدائش پر کوئی خوشی ہی نہیں ہے۔

یہ سب باتیں ایک طرف ۔۔۔ ہمیں اپنے جشن کا طریقہ دیکھنا چاہیئے کہ دن پیغمبر کی پیدائش کااور سارے کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت والے، بغاوت اور نافرمانی والے…!!

امام الانبیاء خاتم النبین جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین اسلام کی روح ہے‘ آپ کی محبت کے بغیر کوئی شخص مسلمان اور مومن نہیں ہوسکتا‘ اور صرف محبت ہی نہیں بلکہ ایسی محبت جواپنی جان ‘ماں باپ اور آل اولاد اور دنیا جہاں کے سارے انسانوں کی محبت سے زیادہ ہو ۔ صحیح البخاری میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کے نزدیک اس کے ماں اور باپ ‘ آل اولاد ور ساری دنیا سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص میں تین خصلتیں پیدا ہو جائیں وہ ایمان کی حلاوت‘ مٹھاس اور شیرینی محسوس کرے گا ۔ پھر تین خصلتوں میں سے سب سے پہلی خصلت یہ بتائی کہ :
’’ جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں‘‘۔

یہ محبّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان اور اسلام کی روح ہے۔ لیکن آج ہم نے اس بات پر غور کرنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کیا ہے۔ اور اس کا اظہار کیسے ہے اور اس کی علامتیں کیا ہیں…!!

کیونکہ آج ہم لوگوں نے من گھڑت بدعات وخرافات کو رسول اللہ ﷺ کی محبت کا نام دے دیا ہے اور ۱۲ ربیع لاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش کا جشن سلیبریٹ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ محبت رسول کا یہ انداز قرآن و سنت اور صحابہ و تابعین سے ثابت ہے …یا نہیں؟

حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس تیسری عید اور جشن کا ثبوت تو کہیں بھی نہیں ہے ، اگر یہ عید قرآن و سنت سے ثابت ہوتی یا حبِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار ہوتی تو اس کا فرمان خود نبی مکرم ضرور ارشاد فرماتے ۔ جبکہ نبی مکرم ﷺنے یہ ضرور ارشادفرمایا: ’’جس نے ہمارے دین میں نئی بات پیدا کی وہ بات مردود ہے‘‘۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں نہ کبھی اپنا یوم پیدائش منایا اور نہ ہی صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا تھا۔ نیز یہ کام نہ تو خلفائے راشدین نے انجام دیا اور نہ ہی عام صحابہ کرام نے۔ لہذا معلوم ہوا کہ یہ کام بدعت ہے…

تو کیا ان صحابہ کو اپنے پیارے پیغمبر سے محبت نہیں تھی کیا!! پھر انہوں نے یہ دن کیوں نہ ہماری طرح سیلیبریٹ کیا…!! انہوں نے ہماری طرح محبت کا ثبوت دیتے ہوئے کیوں نہ بازار سجائے…! بیسیوں کپڑے کے قیمتی تھان لٹکائے…! جھنڈیاں کیوں نہ لگائیں…؟شیرینی کیوں نہ بانٹی…؟؟ صحابہ کرام کی جانثاری کے نزدیک ہماری محبت کچھ بھی معنی نہیں رکھتی۔
محبت کامعیار نعرہ بازی نہیں اور نہ ہی اس کا تقاضا ریاکاری اور دکھلاوا ہے۔ محبت و الفت دائمی تعلق کانام ہے۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ لگانا تو آسان ہے، لیکن محب بننا مشکل۔محبت موسمی چیز تھوڑی ہے جو ربیع الاول میں سیلاب بن کر آئے اور باقی سارا سال ہمیں احساس تک نہ ہو کہ ہمارا کوئی رسول بھی ہے…!!

آیئے! اگر ہمیں محب بننا ہی ہے اور سچی محبت بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلا جائے، صحابہ کرام مہاجرین انصار مدینہ، شہدائے احد، مجاہدین بدر اور خصوصی مکی زندگی میں اسلام قبول کرنے والے فرشتہ سیرت لوگوں کی شفتگی اور والہانہ عقیدت اور سراپا جاں نثاری سے سبق لیا جائے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اور صحیح معنوں میں اطاعت و پیروی کی جائے، آپ کا دین دنیا میں غالب کیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ڈھالا جائے۔

دعا کیجیئے ! کہ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت و توفیق کے ساتھ ساتھ ، ہمیں سنت پر گامزن رہنے اور بدعت سے دود رہنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین ثم آمین۔

Leave a reply