کیلیفورنیا کی ٹیکنالوجی کی دنیا، جسے دنیا بھر میں "سیلیکون ویلی” کے نام سے جانا جاتا ہے، اب ایک نئی اور خطرناک جاسوسی کی جنگ کا مرکز بن چکی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، دفاعی نظام اور خلائی منصوبوں سے وابستہ کمپنیوں کے ملازمین کو چینی اور روسی خفیہ ایجنسیاں "محبت” اور "رشتوں” کے ذریعے نشانہ بنا رہی ہیں۔
ایک امریکی سائنسدان نے بتایا کہ وہ ایک کانفرنس میں ایک خاتون سے ملے ، ذہین، پُرکشش اور ان کے کام میں دلچسپی رکھنے والی، برسوں بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ خاتون دراصل چینی انٹیلیجنس آپریشن کا حصہ تھیں، جن کا مقصد امریکی ٹیکنالوجی سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنا تھا۔
یہی جدید دور کی جاسوسی ہے، جہاں محبت، دوستی اور ازدواجی تعلقات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکی ماہرین اس رجحان کو "سیکس وارفیئر” کا نام دیتے ہیں۔امریکی کمپنیوں کو سیکیورٹی مشاورت فراہم کرنے والے ماہر جیمز ملونن نے انکشاف کیا کہ انہیں حالیہ دنوں میں "خوبصورت چینی خواتین” کے نام سے بڑی تعداد میں لنکڈ اِن پر کنکشن ریکویسٹ موصول ہو رہی ہیں۔ان کے مطابق یہ سرگرمی غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے، اور ہر ریکویسٹ بظاہر پروفیشنل نظر آتی ہے لیکن پیچھے خفیہ مقاصد ہوتے ہیں،ملونن کے مطابق ورجینیا میں منعقدہ ایک بزنس کانفرنس میں دو چینی خواتین نے داخل ہونے کی کوشش کی، جن کے پاس تقریب کی تمام تفصیلات موجود تھیں۔ہم نے انہیں اندر نہیں آنے دیا، لیکن وہ مکمل طور پر تیار تھیں۔ یہ ہماری ثقافتی اور قانونی حدود کے باعث ایک خطرناک کمزوری ہے،امریکی ماہرین کے مطابق یہ غیر متوازن جنگ ہے،ملونن، جو تیس سال سے انسدادِ جاسوسی کے شعبے سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ چین اور روس کو اس معاملے میں ایک ’غیر متوازن برتری‘ حاصل ہے کیونکہ امریکی قوانین اس نوعیت کی جوابی کارروائیوں کو محدود کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چین اور روس صرف تعلقات نہیں بلکہ کاروباری پلیٹ فارمز، اسٹارٹ اپ مقابلوں، اور اکیڈمک کانفرنسز کو بھی جاسوسی کے ذرائع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔چینی کمپنیاں امریکہ میں اسٹارٹ اپس سے بزنس پلان اور ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے انویسٹمنٹ کے بہانے معلومات اکٹھی کرتی ہیں۔ایک سابق امریکی انٹیلیجنس افسر نے انکشاف کیا کہ ایک خوبصورت روسی خاتون نے ایک امریکی ایرو اسپیس انجینئر سے شادی کی اور برسوں تک حساس منصوبوں کی معلومات حاصل کرتی رہیں۔یہ سوچنا تکلیف دہ ہے، مگر یہ طریقہ بہت عام ہو چکا ہے
امریکی انٹیلیجنس اندازوں کے مطابق ہر سال تقریباً 600 ارب ڈالر کا نقصان صرف انٹیلیکچوئل پراپرٹی چوری کے ذریعے ہوتا ہے، جس میں زیادہ تر نقصان چین سے منسلک ہے۔سابق امریکی سیکیورٹی تجزیہ کار جیف اسٹوف نے کہا کہ سیلیکون ویلی اب ایک ’وائلڈ ویسٹ‘ بن چکی ہے، جہاں معاشی اور تکنیکی جاسوسی کا زور ہے،چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ امریکی دفاعی اداروں سے منسلک اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کے ذریعے حصہ داری خرید کر حساس معلومات تک رسائی حاصل کرے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کیلیفورنیا میں چینی انٹیلیجنس یونٹس مقامی سیاستدانوں، تاجروں اور کمیونٹی لیڈرز کو متاثر کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔سان فرانسسکو کی مشہور سیاسی شخصیت روز پیک کا کیس ایک مثال کے طور پر دیا جاتا ہے، جن پر خفیہ طور پر چینی اثر و رسوخ کو فروغ دینے کے الزامات لگے تھے۔2008 بیجنگ اولمپکس کے دوران چینی انٹیلیجنس نے مبینہ طور پر ہزاروں چینی طلباء کو منظم کیا تاکہ تبتی، ایغور اور فالون گونگ مظاہرین کے احتجاج کو دبایا جا سکے۔روس نے بھی سرد جنگ کے روایتی طریقے بدل کر اب وینچر کیپیٹل کمپنیوں اور ٹیک اسٹارٹ اپس میں داخلہ حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔اگرچہ 2017 میں روسی قونصل خانہ بند ہو گیا تھا، مگر "ہنی ٹریپس” اور ثالثوں کے ذریعے جاسوسی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
امریکی ماہرین کے مطابق اوپن کلچر، فری انویسٹمنٹ ماحول اور کم رپورٹنگ کی وجہ سے جاسوسی روکنا مشکل ہو گیا ہے۔ٹیکنالوجی کے مراکز جیسے بولڈر، چیپل ہل، اور آسٹن میں بھی ایسے خطرات بڑھ رہے ہیں۔








