جائیں تو کہاں جائیں؟ — احمد ندیم اعوان

0
49

پاکستانی میڈیا کو اب تک 4 ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پہلا دور سرکاری میڈیا ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کا تھا۔ جس کے خبرنامہ میں صدر، وزیر اعظم کی سرکاری تقریبات، وزیر اطلاعات وغیرہ کے پالیسی بیان، ملک میں ہونے والا بڑا حادثہ، کھیل، شوبز کی خبریں اور آخر میں موسم کا حال سنا کر سب امن سکون کی شنید سنائی جاتی تھی۔ اس دور میں مالاکنڈ ڈویژن میں زیادہ بارش اور بلڈ پریشر کے مریض کم ہوتے تھے۔

پھر اخبارات کا دور آیا۔ حکومت مخالف خبریں شایع ہونا شروع ہوئیں اور ساتھ ہی سینسر شپ بھی۔ قلم کے مزدور باز نہ آتے۔ روز کسی نئے انداز سے معلومات عوام تک پہنچا دیتے۔ آزادی صحافت کے لیے کوڑے کھانے والوں کے قلم کی کاٹ سے ایوانوں میں رہنے والے پریشان ہوجاتے۔ گرفتاریاں، کریک ڈاون اور اخبارات کو بند کرنے کے احکامات روز کا معمول تھا۔
سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا دفتر خارجہ کے نام کھلا خط … محمد عبداللہ

پھر نجی ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد نہ صرف میڈیا فاسٹ ہوا بلکہ کمرشل بھی ہوگیا۔ صحافیوں کی تنخواہیں بہتر ہونے کے ساتھ صحافت نایاب ہوگئی۔ یار دوستوں کو کہتے سنا۔ پہلے اخبار میں صحافت کرتے تھے۔ اب چینل میں نوکری کرتے ہیں۔ چینل بھی تقسیم ہیں۔ ایک حکومت کا حامی تو دوسرا مکمل مخالف، ایک پرو آرمی تو دوسرا آرمی مخالفت میں کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔ ایسے میں کس پر اعتبار کریں
سوشل میڈیا پر بھارت کا راج پاکستانی بے یارو مددگار — محمد عبداللہ

سب چھوڑیں اب بات کرتے ہیں دور حاضر کی۔ موبائل نے سب کو فوٹوگرافر اور سوشل میڈیا نے سب کو صحافی بنادیا ہے۔ حقائق کیا ہیں اسے چھوڑیں بس اپنے لیڈر کو درست اور مخالف کو ننگا کرنا مشن ہے۔ مشرقی اقدار، روایات، اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کبھی بیٹیاں سانجھی ہوتی تھیں اب مخالف سیاسی پارٹی کی ہوگئی ہیں۔

کبھی دنیا بہت بڑی ہوا کرتی تھی۔ بھی گلوبل ویلیج بن گئی اور اب سوشل میڈیا نے اسے ایک اندھیرا کنواں بنا دیا ہے۔ جہاں ہمیں اپنے جیسے ہی نظر آتے ہیں جو خوش فہمی یا مایوسی میں مبتلا کردیتے ہیں۔

ماضی کے میڈیا پر الزام تھا کہ وہ مرضی کی خبریں دکھاتے ہیں۔ مگر آج سوشل میڈیا کے کسی اسٹیٹس یا ٹوئیٹ پر آنکھ بند کر کے اعتبار کریں تو معلوم ہوتا ہے فیک اکاونٹ ہے۔

اب آپ ہی بتائیں۔ ہم جائیں تو کہاں جائیں؟

Leave a reply