جیت کااحساس — ریاض علی خٹک

0
37

مچھیرے جال پھینک کر مچھلیاں پکڑتے ہیں. لیکن انسٹاگرام فیس بُک پر فخریہ اپنی پکڑی کسی مچھلی کے ساتھ تصاویر شئیر نہیں کرتے. کیونکہ اس میں کمال مقام اور جال کا بھی شریک ہوتا ہے. لیکن ایک کانٹا لٹکائے شکاری صرف ایک مچھلی پکڑتا ہے اور جیت کا ایسا احساس اسے ملتا ہے کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے دیکھو میں نے مچھلی پکڑی. یہ میرا کمال ہے.

یہ واقعی ایک کمال ہے. ایک مچھلی ساری جھیل دریا اور سمندر میں بکھری فطرت کی خوراک چھوڑ کر اگر اس کانٹے پر لپکے اور شکاری اسے شکار بنالے تو کمال ہی کہلائے گا. ایسے ہی ٹیکنالوجی کے اس دور میں کلک بیٹس ہنی ٹریپ اور آڈیو ویڈیوز کو سچ مان لینے والی مچھلیاں بھی کمال مثال ہوتی ہیں.

ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب کچے کے ڈاکو بھی وائس چینجر سوفٹویر سے لڑکی کی آواز میں کوئی مرغا ایسا پھنسا لیتے ہیں جو سب کچھ چھوڑ کر جنگل میں چلا جاتا ہے. تو یہ اس ڈاکو شکاری کا کمال ہی ہے. البتہ اس مرغے کی یہ جہالت ہوگی. ایسے ہی سیاسی مقاصد کیلئے آڈیوز ویڈیوز کا استعمال کرنے والے ہوں یا انٹرنیٹ پر لوگوں کے کلکس سمیٹنے والے چینلز کی سرخیاں ہوں ان کو سچ سمجھنے والی آڈینس یہی بے وقوف مچھلیاں ہی ہوتی ہیں.

جب تک دریا کی مچھلیوں کو عقل نہیں آئے گی شکاریوں کا شکار جاری رہے گا. ہمارے ہاں یہ شکار جس زور و شور سے جاری ہے یہ صرف یہاں جہالت کا حساب بتا رہا ہے.

Leave a reply