جیسی رعایا ویسا حکمران، تحریر: ساجدہ بٹ

0
45

جیسی رعایا ویسا حکمران

تحریر: ساجدہ بٹ
موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے ،
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور عوام دونوں ہی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں ۔۔۔2020ء تو ہمارے لیے کئی مشکلات لے کر آیا ہے۔۔۔۔
قارئین کرام وہ مشکلات کون کون سی ہیں ؟؟؟
یہ بتانے سے پہلے میں چاہوں گی کہ بات ذرا مثال کے ساتھ کی جائے۔۔۔
میں اکثر اوقات ذکر کیا کرتی ہُوں کہ میرے یونیورسٹی کے قابل احترام ٹیچر سر مختار صاحب کہا کرتے تھے کہ مثال سے بات ذرا جلدی سمجھ آتی ہے ۔۔۔۔
تو چلیے میرے عزیز ہم وطنو ہم بھی ذرا بات سے بات نکالتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!

جیسی رعایا ویسا حکمران
یہ کیسے ممکن ہے؟؟؟
ایک بستی کے دو نوجوان روزگار کی تلاش میں کسی دوسرے ملک کے لیے نکلے۔
ایک نوجوان نیک اور ہمدرد تھا جبکہ دوسرا ظالم اور بُرا۔
جب دونوں دوسرے ملک کی سرحد پر پہنچے تو لوگوں کا مجمع دیکھا۔یہ بھی کھڑے ہو گئے۔اس ملک کا بادشاہ مر گیا تھا اور وہ حسب دستور کبوتر چھوڑنے والے تھے کہ جس کے سر پر بیٹھے اسے بادشاہ بنا لیں۔اتفاق سے کبوتر ان دو نوجوانوں میں سے ظالم اور برے کے سر پر بیٹھ گیا۔
لوگوں نے اسے بادشاہ بنا لیا۔اس نے بادشاہ بن کر ظلم کی انتہا کردی۔
عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ایک دن اس کا ساتھی نوجوان جو نیک تھا اس کے پاس آیا اور اسے احساس دلایا کہ وہ رعایا پر ظلم نہ کرے اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرے۔

پھر اس ظالم بادشاہ نے جو جواب دیا قارئین کرام وہ بڑا دلچسپ لگا ۔۔۔۔
اس نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
جب لوگوں نے کبوتر اڑایا تو تُو بھی میرے ساتھ تھا اگر اللہ تعالیٰ کو قوم کی بھلائی مقصود ہوتی تو کبوتر تیرے سر پر بیٹھتا
جی ہاں میرے عزیز ساتھیو !!!!!
اُمید ہے کچھ کُچھ بات تو سمجھ آ ہی گئی ہو گی تو چلیے جو رھ گئی وہ اپنی مثال یعنی عوام سے اور موجودہ حکومت سے سیکھتے ہیں۔۔۔
موجودہ حکومت میں جو مشکلات آئی اُن میں سر فہرست موزی مرض کرونا وائرس ہے جس کا علاج تاحال معلوم نہیں ہو سکا۔۔۔۔۔
بیماری سے بچنے کیلئے حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا جس پر حکومت کا رد عمل یہ تھا کہ ہم راشن گھر گھر نہیں پہنچا سکتے کیوں کہ حکومت اس قابل نہیں ہے۔۔۔اور عوام کا ردِ عمل یہ رہا کہ سب سے پہلے کے غریب عوام بھوکی مر جائے گی اگر کام نہ ہوا ۔۔اور دوسری بڑی بات یہ ہو گئی کہ عوام نے کرونا کو مذاق سمجھ لیا اور سوچا کہ حکومت پیسے بنانے کا پلان بنا رہی ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔
حکومت اور عوام کے غیر سنجیدہ رد عمل سے یہ ہوا کہ کرونا وائرس بری طرح ملک بھر میں پھیل گیا اب صورت حال یہ ہو رہی ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد ہر طرف پھیل گئے ہیں۔۔۔
ہسپتالوں میں وینٹیلیٹر اور دیگر طبی سامان کی کمی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔
اس نہج تک پہنچنے کے زمہ دار کون ہیں؟؟؟
ہم صرف و صرف حکومت کو کیوں ٹھہرائیں ؟
یہ اہم معرکہ سر انجام دینے والے عوام اور حکومت دونوں ہیں ۔۔۔۔۔
حکومت گھر گھر بجلی کا بل،گیس کا بل پانی کا بل تو پہنچا سکتی تھی کرونا وائرس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن راشن کیوں نہیں؟؟؟
اور دوسری طرف عوام کی لا پرواہی نے کئی ہم وطنوں کو موت کی نیند سلا دیا۔۔۔۔
2020 میں ہی چینی کا بحران ہوا ۔۔۔۔۔۔
آٹے کا بحران ہوا یہاں تک آٹا 2500 کے حساب سے 20 کلو ملنے لگا ۔۔۔۔
اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے عہدہ داروں سے لے کر عام دکاندار تک گاؤں کے چھوٹے چھوٹے کسانوں سمیت ہر ایک نے خوب کمانے کی کوشش کی گندم ذخیرہ کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بتائیے میرے عزیز قارئین کرام یہاں قصور وار صرف حکومت ؟؟؟
یا صرف عوام؟؟؟
یقینا دونوں۔۔۔۔۔
پھر اس حکومت میں اور بڑی مشکل یہ آئی کہ ٹڈی دل کا حملا ہوا اور جو فصلیں کی فصلیں چٹ کر گیا۔۔۔۔۔
جو ابھی تک کنٹرول نہیں ہوا ۔۔۔۔کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ ہی صورت حال رہی تو خُدا نخواستہ غذائی بحران کا شکار نہ ہو جائیں۔۔۔۔
ان عذابوں سے بڑھ کر ایک اور عذاب ہم پر ٹوٹ پڑھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔۔۔
کہ کراچی میں طیارہ تباہ ہو گیا اور بہت سے ہم وطن ساتھی موت کا شکار ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔
خوف کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف چیخ و پکار تھی اور کچھ بے درد افراد وہاں بھی موجود تھے جو لوگوں کا بچا کچھا سامان چھپانے لگے۔۔۔۔۔۔
اللہ ہی جانے ایسی رعایا کا آخر میں کیا انجام ہو گا۔۔
اور حکومت تاحال صحیح سے معلوم نہ کرسکی کے اس حادثے کی وجہ کیا تھی؟؟؟؟
گزشتہ روز حکومت نے مہنگائی سے تنگ عوام پر ایک مہربانی کی ۔۔۔۔
پیٹرول سستا کر دیا۔۔۔۔
پیٹرول تو سستا ہو ہی گیا،لیکن ساتھ ہی ساتھ نایاب بھی ہو گیا۔۔۔
حکومت کا فیصلہ اور پیٹرول مافیا کا اتنا نیگیٹو رد عمل کیوں ؟؟؟؟
عوام کو ایک خوشی صرف دکھائی ہی گئی خوشی منانے کی اجازت شاید نہیں تھی ۔
پیٹرول 75 روپے فی لیٹر ہوا تو نایاب ہو گیا ۔۔۔ جن جن کے کاروبار ہی پیٹرول سے چلتے تھے ان غریب افراد کا کیا حال ہوا ہو شاید ہی حکومتی عہدہ دار یا اونچے درجے کے لوگ سمجھ سکیں۔۔۔۔
پیٹرول کا بحران ہوا تو آٹے کے بحران کی طرح بڑے سے بڑے اور چھوٹے چھوٹے پیٹرول بیچنے والوں نے خوب منافع کمایا ۔۔۔۔۔
پیٹرول میں مٹی کا تیل شامل کرکے 130 روپے فی لیٹر بیچا گیا اور کسی نے 150 فی لیٹر قیمت وصول کی خریدنے والوں نے خریدا کیوں کہ روزی کمانے کے لیے اس کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔اب حکومت نے پیٹرول کا حل یہ نکالا کہ 25 روپے 58 پیسے فی لیٹر قیمت میں اضافہ کر دیا اور پٹرول مافیا بھی خوش ہو گئی اور پیٹرول اب عام ملنے لگا۔۔۔۔۔۔
لیکن حکومت سے پھر ایک سوال کہ غریب عوام کا اس ساری صورتحال میں کیا قصور؟؟؟
اور اب حال ہی میں ایک اور انوکھا واقعہ سننے کو ملا کہ اسلام آباد میں مسجد توحید کی جگہ غیر مسلم کی عبادت گاہ کے لئے مختص کر دی گئی۔۔۔۔۔
یہ درست ہے کہ نہیں ،،،
یہ حکومت کا فیصلہ ہے حزبِ اختلاف پارٹی کا یا عام عوام میں سے کسی کا ؟؟..
ان سب باتوں کو چھوڑ کر میں قرآن کریم کی آیت مبارکہ کا ذکر کرنا چاہوں گی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیان ہے۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔
سورۃ انبیاء
ترجمہ: پھر ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں میں سے سوائے ایک بڑے بت کے سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کہ شاید اس کی طرف رجوع کریں

سبحان اللہ ہماری اسلامی تعلیمات کس قدر خوبصورت اور جرت و بہادری سے بھری پڑی ہیں کہ مشرکین کی عبادت گاہوں میں گھس کر اُن کے معبودوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کس احسن طریقہ و تدبیر کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔۔
اور ہم ہیں کہ غیر مسلم کی عبادت گاہ اپنی عبادت گاہ ختم کرکے بنا رہے ہیں۔۔۔۔
ان ساری صورت حال کو جب میں نے اپنی آنکھوں سے گزرتے ہوئے دیکھا تو فقط اتنا ہی کہہ پائی!!!!!!!!!!!!!!!!!
جیسی رعایا ویسا حکمران

میں اپنی تحریر کا اختتام اس شعر پر کرنا چاہوں گی کہ ۔۔۔۔۔
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہو گیا

یہ تصور تو ہر گز ہمارا نہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین۔۔۔۔۔

جہد مسلسل

Leave a reply