جھوٹ اور مزاح بقلم: فاطمہ ہاشمی

0
114

جھوٹ اور مزاح
فاطمہ ہاشمی

کل یہ پوسٹ کی تھی کہ سات دن کے اندر اندر سب انسان مر جائیں گے اور آٹھواں دن نہی آئے گااور میں نے کہا تھا کہ رات تک جواب دے دیا جائے گا لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ اک ایمرجنسی کی وجہ سے رات کو جواب نہیں دیا جاسکا ۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ جھوٹ مذاق میں بھی بولنا جائز نہیں اور اس کا گناہ لکھا جاتا ہے
اللہ قرآن میں فرماتا ہے
أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ [39-الزمر:3]
ترجمہ : ”دیکھو خالص عبادت خدا ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں خدا ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے:” تباہی وبربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتاہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے ” ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲

عن ابي امامة قال : ‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ‏‏‏‏ انا زعيم ببيت فى ربض الجنة لمن ترك المراء وإن كان محقا وببيت فى وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحا وببيت فى اعلى الجنة لمن حسن خلقه“ . [ابوداؤد حديث 4800، و قال الشيخ الألباني حسن]
ترجمہ : ”ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو۔“

دوسری بات مذاق درست نہیں ہے جیسے فنی لطیفے آجکل چلتے ہیں جو جھوٹ پہ مبنی ہوتے ہیں یہ جائز نہیں اور حرام ہیں البتہ اسلام میں مزاح جائز ہے اس کی مثالیں اللہ کے نبیؐ سے ملتی ہیں

اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت کس طرح کی تھی؟ اس تشریح کی یوں ضرورت ہے کہ بہت سے کاموں میں ہمارے غلط عمل سے ہمارے نظریات بدل چکے ہیں۔ ہر معاملہ میں اعتدال کھو بیٹھے ہیں۔اگر ہم سنجیدہ اور متین بنتے ہیں تو اس قدر کہ تہذیب ہم سے کوسوں دور رہتی ہےیعنی بے جا سنجیدگی اور ہمیشہ چہرہ متغیر رکھنا۔اور اگر خوش طبع بنتے ہیں تو اس قدر کہ تہذیب ہم سے کوسوں دور رہتی ہے۔یعنی بلاوجہ جھوٹی سچی باتوں پہ قہقہے لگاتے پھرنااسلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں ایک خاص معیار اپنے سامنے رکھنا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی زبان مبارک سے سن لیجئے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعجب سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مذاق کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں بے شک! میرا مزاح سراسر سچائی اور حق ہے۔ (شمائل۔ترمذی)

اس کے مقابلہ میں ہمارا آج کل کا مزاق وہ ہے جس میں جھوٹ، غیبت، بہتان، تعن و تشنیع اور بے جا مبالغوں سے پورا پورا کام لیا گیا ہو۔

اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت کے چند واقعات قلمبند کر رہے ہیں کہ جن کے تحت ہم ظرافت کا صحیح تخیل قائم کرسکے ۔
چلیں آج ہم اپنے سوالوں کا جواب دینے سے پہلے نبیؐ کے مزاح مبارک پہ آپ کو بتاتے جاتے ہیں
جنت میں بوڑھے نہیں جائیں گے ۔۔
___مزاح نبوی صلی اللہ علیہ وسلم _____

ایک شخص نے خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر سواری کے لئے درخواست کی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم کو سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا۔وہ شخص حیران ہوا کیونکہ اونٹنی کا بچہ سواری کا کام کب دے سکتا ہے؟ عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اونٹی کے بچہ کا کیا کرونگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی اونٹ ایسا بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو۔(شمائل ترمذی)

2:ایک مرتبہ ایک بڑھیا خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالٰی مجھ کو جنت نصیب کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ اور بڑھیا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سنتے ہی زاروقطار رونا شروع کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب سے آپ نے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی تب سے یہ بڑھیا رورہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ بوڑھی عورتیں جنت میں جائیں گی مگر جوان ہوکر۔(شمائل۔ترمذی) (اسکی سند میں ضعف ہے)

3: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دیہاتی زاہر نامی دوست تھے جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدئے بھیجا کرتے تھے۔ایک روز وہ بازار میں اپنی کوئی چیز بیچ رہے تھے۔اتفاق سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گذرے ان کو دیکھا تو بطور خوش طبعی چپکے سے پیچھے سے جاکر ان کو گود میں اٹھالیا اور بطور ظرافت آواز لگائی کہ اس غلام کو کون خریدتا ہے؟ زاہر نے کہا مجھے چھوڑ دو کون ہے؟ مڑ کر دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔حضرت زاہر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا:یارسول اللہ! مجھ جیسے غلام کو جو خریدے گا نقصان اٹھائے گا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم خدا کی نظر میں ناکارہ نہیں ہو ۔

4: ایک موقع پر مجلس میں کھجوریں کھائی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزاح کے طور پر گھٹلیاں نکال نکال کر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آگے ڈالتے رہے۔ آخر میں گھٹلیوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے ان سے کہا کہ تم نے تو بہت کھجوریں کھائیں ۔انہوں نے کہا کہ میں نے گھٹلیوں سمیت نہیں کھائیں۔
(از:محسن انسانیت،اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)
دیکھئیے مزاح اسلام میں جائز مگر یہ کہ وہ بات میں جھوٹ اور کسی کی تحقیر نا ہو اوپر بیان کردہ واقعات اک بھرپور خوش طبعی اور سچائی سے لبریز ہیں
باقی رہی سات دن کے اندر اندر سب انسان مر جائیں گے اور آٹھواں دن نہیں آئے گا تو اسکی وضاحت یوں ہے ہفتہ، اتوار ، پیر،منگل ، بدھ ، جمعرات ، جمعہ یہ کل ملا کر سات دن ہوئے جو بھی مرے گا انہی سات دنوں میں مرے گا آٹھواں دن نہیں آئے گا حتیٰ کہ قیامت بھی انہی سات دنوں کے اندر بعض احادیث کے مطابق جمعہ کے دن آئے گی
باقی اگر ہم انسانی زندگی پہ غور کریں تو کیا ایسے نہیں لگتا کہ کل کی بات ہے ہم چھوٹے چھوٹے تھے آج دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے بچے بڑے ہو رہے ہیں
اور قرآن میں دنیا کی اس زندگی کو بہت تھوڑی کہا گیا یہ صرف امتحان گاہ جس میں کوئی زیادہ جلدی چلا گیا اور کوئی دیر سے جائے گا مگر حساب سب کا ہوگا

میں نے کہا کہ دنیا کے لوگ سات دن کے اندر مریں گے مگر قیامت کے دن لوگ کیا کہہ رہے ہوں گے قرآن کیا کہتا ہے آئیے دیکھتے ہیں

وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّا عَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ۙ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَا عَةٍ ۗ كَذٰلِكَ كَا نُوْا يُؤْفَكُوْنَ
"اور جب وہ ساعت برپا ہو گی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھیرے ہیں، اِسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے”
(QS. Ar-Rum 30: Verse 55)

یعنی انسان کو یہ دنیا کی زندگی اک گھڑی کی مانند لگے گی اللہ سے پناہ طلب کرتے ہیں کہ ہم مجرموں کے طور پہ پیش ہوں اک اور جگہ اللہ فرماتے ہیں
Allah Subhanahu Wa Ta’ala said:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَيْدِيَكُمْ وَاَ قِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰ تُوا الزَّكٰوةَ ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَا لُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّا سَ كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَا لُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَا لَ ۚ لَوْلَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۗ قُلْ مَتَا عُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ وَا لْاٰ خِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى ۗ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا
"تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا”
(QS. An-Nisa’ 4: Verse 77
یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ دنیا کاسرمایہ زندگی تھوڑا ہے اور ہم انسان ہیں کے کہ لمبی لمبی امیدیں لگائے بیٹھے اور ساری توجہ دنیاوی ذندگی اور تن آسانی کے لیے ہے لیکن ہم آخرت کو بھول چکے ہیں ہماری ساری بھاگ دوڑ کوشش کاوش اس مختصر سی دنیا کے لیے ہے مگر آخرت کی حقیقی زندگی کو نظرانداز کئیے ہوے ہیں

ایک فکر انگیز واقعہ :
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کرےگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے ، یہ ہمارے کس کام کا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا ، اس کے کان چھوٹے ہیں ، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے ۔ اور فرمایا آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے ۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے قطرے کی سمندر کے مقابلے میں

اس لیے ہمیں اللہ آخرپہ نظر رکھنےکی توفیق دےاور ہماری غلطیوں کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں معاف فرمائے اور یہ جھوٹے لطیفوں اور لغو باتوں سے محفوظ رکھے

Leave a reply