بےپناہ مقبولیت کے لئے معروف، مترنّم لب و لہجے کے مشہور شاعر” جگرؔ مراد آبادی صاحب "

0
63

؍ستمبر ۱۹۶۰

شہنشاہِ تغزل، رئیس المتغزلین، ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف، مترنّم لب و لہجے کے مشہور شاعر” جگرؔ مراد آبادی صاحب “ کا یومِ وفات…

*جگرؔ مراد آبادی*، نام *علی سکندر* تخلص *جگرؔ*۔ ولادت *۶؍اپریل ۱۸۹۰ء مرادآباد (اتر پردیش)* ۔ قرآن پاک ، فارسی اور اردو کی تعلیم اس زمانے کے دستور کے مطابق گھر پر ہوئی۔ ان کے والد *علی نظر* شاعر تھے۔ جگر کے خاندان کے دوسرے اصحاب بھی شاعر تھے،اس طرح جگر کو شاعری ورثے میں ملی ۔چناں چہ جگر کی شعر گوئی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۴ برس کے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے *حیات بخش رسا* کو کلام دکھایا، پھر *حضرتِ داغ* سے رجوع کیا اور کچھ عرصہ *امیر اللہ تسلیم* سے بھی اصلاح لی۔ جگر صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف اضلاع میں گزرا۔ ان کا پیشہ چشموں کی تجارت تھا۔ *اصغر گونڈوی* کی صحبت نے *جگر* کی شاعری کو بہت جلا بخشی۔ *جگرؔ* مشاعروں کے بہت کامیاب شاعر تھے ۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔بحیثیت انسان وہ نہایت شریف واقع ہوئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں *’’پدما بھوشن‘‘* خطاب دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے *جگرؔ* کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ان کے آخری مجموعہ کلام *’’آتِش گل‘‘* پر ان کو ساہتیہ اکیڈمی سے انھیں پانچ ہزار روپیہ کا انعام ملا۔ اور دو سو روپیہ ماہ نامہ وظیفہ مقرر ہوا۔ *’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘* ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔
شراب ترک کرنے کے بعد ان کی صحت بہت خراب رہنے لگی تھی۔ وہ مستقل طور پر *گونڈہ* میں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ *۹؍ستمبر ۱۹۶۰ء* کو تقریباً صبح ۶بجے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:315*

🦋

💐 *شہنشاہِ تغزل جگرؔ مراد آبادی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…* 💐

آج کیا حال ہے یا رب سرِ محفل میرا
کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا

*نگۂ ناز لے خبر ورنہ*
*درد محبوب اضطراب ہوا*

ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
شامل کسی کا خونِ تمنا ضرور تھا

*جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت*
*شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا*

جب کوئی ذکرِ گردشِ آیام آ گیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا

*جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر*
*عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا*

شکستِ حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا
نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا

ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا

کیا جانئے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

*حسنِ کافر شباب کا عالم*
*سر سے پا تک شراب کا عالم*

پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں

شاعرِ فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں

*وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ*
*جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ*

محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں

*ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں*
*ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں*

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانا ہے

*اپنے فروغِ حسن کی دکھلا کے وسعتیں*
*میرے حدودِ شوق بڑھا کر چلے گئے*

یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے

ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

آغازِ محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

جان ہے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
اب نہ وہ داغ، وہ جگر، صرف ہے اِک خیال سا

کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کا
ورنہ پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے

مدت ہوئی اک حادثٔہ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

معراجِ شوق کہئے، یا حاصلِ تصوّر !
جس سمت دیکھتا ہُوں تُو مُسکرا رہا ہے

دیوانہ وار جان بفشاندن گناہِ من
بیگانہ وار رخ ننمودن گناہِ کیست؟

ترجمہ :-

دیوانہ وار جان لٹانا ہے میرا جُرم
بیگانہ وار رُخ نہ دکھانا ہے کس کا جُرم؟

‏تو نے نہ اٹھایا رُخِ نادیدہ سے پردہ
دنیا کو تیری حسرتِ دیدار نے مارا

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

Leave a reply