جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا .تحریر :فضیلت اجالہ

0
27

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
خاتم الرسل پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ مشرکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کیا کرتے تھے لیکن یہ کیسا عجب منظر ہے زمیں حیراں آسماں پریشان ہے
کہ نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کو نانا ( ص) کہ شہر میں ستایا جا رہا ہے ،ولید بن عتبہ یزید کی اطاعت کیلیے ظلم کا باب رقم کر رہا ہے
اہل کوفہ تو مان لیا کہ بے وفاتھے لیکن اہل مکہ کو کیا ہوا کہ نبی آخر الزماں محمد مصطفی ﷺ کے لاڈلے کو مدینہ سے مکہ ہجرت پر مجبور کردیا ۔

اُس طرف ظلم پر آماده زمانے والے
اِس طرف سارے محمدﷺ کے گھرانے والے

یوں امام حسین علیہ السلام 28 رجب کی رات اپنے اہل و ایال اور صحابہ کے ساتھ سفر مکہ کیلیے نکلے ،کچھ آگے بڑھے تو علمدار حسین ابن علی مولا عباس علیہ السلام نے کلام کیا اے جگر گوشہ رسول ہمارے قافلے کے پیچھے ایک چھوٹا قافلہ ہے نواسہ رسول گردن پلٹ کے دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے صحابی ارم غفار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ساتھ معصوم بیٹا ہے اس قدر ضعیف ہیں کہ گھوڑے پہ سوار نہی ہو پا رہے ۔نواسہ رسول نے فوراً ذوالجناح کو انکی سمت موڑا پاس پہنچے تو پوچھا کیا ارادہ ہے ۔
صحابی رسول نے ادب سے سر کو جھکایہ آنکھوں میں نمی ہے اورکہتے ہیں ایک دفعہ نبی پاک ﷺ مسجد نبوی میں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا رسول خداﷺ فوراً منبر سے اترتے ہیں اس بچے کو اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں اے صحابہ اسے پہچان لو یہ میرا نواسہ ہے کبھی اسے ہجرت کرنی پڑے تو اسکا ساتھ نبھانا ،اے نواسہ رسول میں اپنا وہی عہد نبھا رہا ہوں ۔قربان جائیں اس صحابی رسول کے اس عہد کے اور اس جزبہ وفا کے کہ سید زادیوں کے احترام میں ساتھ نہی چلتے چپکے سے پیچھے چلے آتے ہیں ۔

پانچ دن کے بعد سفر اختتام پزیر ہوتا ہے یا شائد یہیں سے سفر حسین کا آغاز ہوتا ہے 3 شعبان 60 ہجری کو سرزمین مکہ پر نواسہ رسول کہ پاؤں پڑتے ہیں تو زمیں مہکنے لگتی ہیں فضائیں جھومتی ہیں کہ آج نبی کے نور نے ہمیں زینت بخشی ہے ۔قافلہ حسین نے مکہ میں تقریبا چار ماہ کا عرصہ گزارا ۔ رسول اللہ ﷺ کے عاشق نواسہ رسول کی قدم بوسی کیلیے حاضر ہوتے ہیں رہتی، اگر دو نواح کی خبر پہنچاتے رہتے ہیں ۔

حج قریب آیا تو امتیوں نے عرض کی حسین علیہ السلام اس دفعہ پچھلی باریوں کے برعکس آپ حج پہ آئے ہیں لیکن قربانی کے جانور نہی لائے کیا اس دفعہ منی پہ قربانی نہی کریں گے اس پہ نواسہ رسول اپنے ہم شکل پیغمبر بیٹے جناب علی اکبر علیہ السلام اور اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کی نشانی اپنے بھتیجے امیر قاسم علیہ السلام کو آواز دیتے ہیں جب دونوں شہزادے آ کے امام حسین علیہ السلام کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں تو نواسہ رسول آسمان کی طرف دیکھتے ہیں مسکراتے ہیں اور جواب کے منتظر لوگوں کی طرف دیکھ کہ کہتے ہیں یہ ہیں میرے شہزادے میں اس سال انہیں راہ خدا میں ،نانا کے دین کی سر بلندی کیلیے قربان کروں گا اور یہ قربانی مکہ میں نہی کربلا کی منی پہ ہو گی ، کیسی قربانی ہےیہ کیسا جزبہ ہے کہ لخت جگر کو دین اسلام پہ قربان کرنے کیلیے تیار ہیں ۔وہ بھتیجا جسکی جوانی کی دھوم ہے کربلا کی خاک کو اسکے خون سے رنگنے کی تیاری ہے ۔

اور پھر 8 زوالحج کا وہ دن جب نواسہ رسول کوفیوں کے جھوٹے خطو ں پر اعتبار کرتے ہوئے سفر کوفہ کا رادہ کرتے ہیں ،حرمت حج کی خاطر نواسہ رسول اپنا احرام کھول دیتے ہیں صحابہ کرام روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آپ کو کوفیوں کی گزشتہ بیوفائ یاد دلاتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام ارادہ باندھ چکے ہیں کہ عشق کی آخری بازی لگانی ہے
پھر مکہ کی فضاؤں نے وہ درد انگیزمنظر بھی دیکھا جب

ایک طرف دنیا بھر سے قافلے حج ادا کرنے کے لیے مکہ میں جوق در جوق چلے آرہے تھے وہیں میرے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و ا له وسلم کا لاڈلہ نواسہ اپنے اہل خانہ کے ہمرا سرزمین مکہ کو الوداع کہ رہے ہیں آج ہی کے دن امام حسین علیہ اسلام نے اپنے مکہ سے کربلا کے سفر کا آغاز کیا تھا۔
‎ ‏چلے ہیں حسین وعدہ نبھانے،
گھر کو لٹانے، اسلام بچانے
نواسہ رسول کا سفر جاری ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار یہ بات ثابت کرنے کیلیے پر عظم ہے کہ یزید صرف ظلم پے اور مولا علی علیہ السلام کا لاڈلہ امن کا نشان ہے ،یزید مائل جبرہے تو جگر گوشہ بی بی فاطمہ زہرہ سلام الله علیہ صبر کا پہاڑ ہے۔ امام حسین علیہ اسلام حق اور صداقت کے بے تاج بادشاہ ہیں جس کا کربلا کے تپتے ریگزاروں میں کیا اک سجدہ کائنات کے تمام سجدوں پہ بھاری ہے ۔
وقت نے یہ بات تاریخ کے صفحوں پہ نقش کی کہ دریا کے کنارے پہرے لگانے والے معصوم بچوں کو پیاسہ رکھ کر خود سیراب ہونے والے مر گئے اور خشک ہونٹوں کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والے ہمیشہ کیلیے امر ہوگئے

افضل ہے کُل جہاں سے گھرانہ حسین ؓکا نبیوں کا تاجدار ہے نانا حسین ؓکا اک پل کی تھی بس حکومت یزید کی صدیاں حسینؓ کی ہیں زمانہ حسینؓ کا

Leave a reply