جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتا ہے کامیابی حاصل کرنے کا سنہرا اصول

0
95

"جو کوشش کرتا ہے وہ پا لیتا ہے” یہ ایک مشہور منقولہ ہے اور آپ نے بارہا سن رکھا ہوگا ہم بہت سی باتیں سن اور سمجھ لیتے ہیں لیکن ہم ان باےتوں کو عملی زندگی میں نظر انداز کر دیتے ہیں دراصل ہمیں اپنے لیے ان باتوں کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہی نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ بتیں دراصل دوسروں کے لیے ہیں ہمیں تو ان کی ضرورت ہی نہیں ہے مثآل کے طور پر شیخ سعدی کے اقوال زریں لے لیں بچپن میں ان کی حکمت و بصیرت سے بھر پور باتیں ان کے بیان کردو قصے نہ جانے کتنی بار پڑھے ہوں گے آپ بتائیں ان کی سنہری باتوں پر ان کے اقوال اور قصوں پر ہم نے آج تک کتنا عمل کیا کتنا غور کیا جو کوشش کرتا ہے وہ پا لیتا ہے اس منقولہ پر غور کیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ کامیابی کے لیے محنت جدو جہد اور کوشش کرنا ہی پڑتی ہے مگر یہ کام تو ہمیں سچ میں بہت ہی برا لگتا ہے ہم کامیابی کا خواب دیکھتے ہیں مگر بغیر محنت کیے اس کی تعبیر چاہتے ہیں مگر ایک بات یہ بھی ہے کہ دیوانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا پنجابی کی ایک کہاوت ہے ” نہ ٹریں تے چا کینائیں نہ کھاویں تے کی کراں؟” جسکا مفہوم ہے کہ اگر تم چل نہ سکو تو میں اٹھا لوں گا لیکن اگر تم نہ کھاؤ تو میں کیا کروں ؟ یعنی جب آپ اپنے حصے کا کام نہیں کرتے تو آپ کی وجہ سے بہت سے لوگ مشکلات اور تکلیفوں کا شکار ہو جاتے ہیں ان میں آپ کے یہل خانہ اور دوست احباب کے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں جن کے ساتھ آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جڑے ہوئے ہوں اپنے حصے کا کام بہرحال آپ کو ہی سر انجام دینا ہے اگر آپ اپنے حصے کا کام کریں گے تو دوسروں کو آپ کی وجہ سے راحت فرحت اور سکون اور خوشی ہو گی ہر شخص کو اپنے حصے کا کام کرنا ہی پڑتا ہے یہی دنیا کی زندگی کا اصو ل ہے بدقسمتی سے آج ہر دوسرا شخص بڑی بڑی باتیں بنانا اور خواب دیکھنا تو خوب جانتا ہے اور سمجھتا ہے کام ہو گیا دنیا میں انقلاب آ گیا مگر ایسا حقیقت میں نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے خیالی دنیا میں اور باتوں سے بھلا کام کس کا بنا ہے اس کو تو خیالی پلاؤ کہتے ہیں اور پکانے والے کو شیخ چلی بڑے افسوس کی بات ہے بدنصیبی سے آج یہاں ہر دوسرا انسان شیخ چلی ہے انسان کچھ بو کر ہی کچھ کاٹتا ہے اہل جنت کو یہ نعمت ضرور نصیب ہو گی کہ ان کے کہنے سے ہی کام ہو جایا کریں گے لیکن ابھی تو فی الحال ہم اس دنیا میں ہیں یہاں پکی پکائی روٹی سامنے آ جائے تا بھی نوالہ خود ہی توڑ کر منہ میں ڈالنا پڑتا ہے ورنہ بھوک نہیں مٹتی اور کوئی بھی بڑے بڑے کام کے لیے ہاتھ پیر ثانوی حیثیت نہیں رکھتے اصل حیثیت تو دل و دماغ کو حاصل ہے یعنی قوت فیصلہ ہمت اور ذہانت جیسے کہ ایک صاحب ایک معذور شخص کو وہیل چیئر پر سیرو سیاحت کی غرض سے سفر کرتا دیکھ کر بہت حیران ہوئے انہوں نے اس شخص سے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو اس نے ہنس کر کہا کیا ہوا میری ٹانگیں نہیں مگر دل اور دماغ تو ہے نہ” لہذا آپ کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوشش تو بہر حال کرنا ہی ہو گی اور کوشش کا صلہ کامیابی ہے حالات کو بدلنے اور کوئی بڑی تبدیلی لانے کے لیے بد گمانی کم ہمتی وسوسوں رنج و اندیشوں کو جھٹک کر کوئی عملی قدم اٹھائیں اگر رنج کی سو وجہ آپ کو نظر آ رہی ہوں تو امید کی بھی ہزار وجہ موجود ہوتی ہیں قدم اٹھانے سے کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے

Leave a reply