جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے اسے بچا لو اسے ضائع مت کرو — طلحہ ملک

0
36

گذشتہ دو تین برس سے پاکستان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا ہے کبھی عالمی وباء کی مشکلات تو کبھی قحط سالی کی کیفیت نے پاکستان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ملک بھر میں مڈل کلاس کا معاشی مشکلات نے گھیرا تنگ کر رکھا ہے جبکہ آپ اور میں اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کے بہت بڑے علاقے اس وقت شدید پانی کی لپیٹ میں ہیں سیلاب سے ملک کے بڑے اہم ترین علاقوں میں تباہی کی ایسی تاریخ رقم ہو رہی ہے کہ کوئی نیک دِل اس تاریخ کا مطالعہ شروع کر دے تو اس کا دِل پھٹ جائے۔۔

اس تاریخ میں وہ پڑھے گا کہ ایک طبی کیمپ جو قحط زدہ علاقے میں لگایا گیا تھا سے ایک بھوکے شخص نے آ کر ادویات کو کھانا سمجھ کر پیٹ بھرنے کی خاطر کھایا تھا۔ اگر اس قاری میں آگے پڑھنے کی ہمت ہوئی تو وہ یہ بھی جانے گا کہ سیلاب سے متاثرہ خاندان بھوک کے لیے بِلک رہا تھا کسی امیر زادے کے وہاں پہنچنے پر یہاں ایک روتی ہوئی بچی سے سوال کیا گیا کیا چاہیے بیٹا! بتاؤ جو مانگو گی ملے گا۔۔

سسکیوں اور آہوں میں دس سیکنڈ بعد دو جھٹکوں میں آواز نکلی رو-ٹی

آہ۔۔ یہ وہ قوم تھی جس کے قومی شاعر نے کہا تھا
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بیتاب ہو جائے

مؤرخ سیاسی لیڈروں کا کردار لکھے گا تو وہ اپنی قوم کو بتائے گا کہ کرسی کی جنگ معمول کے مطابق جاری تھی اقتدار کے لئے الیکشنز کی کمپین اور جلسے جلوس کی بھرمار تھی۔۔

وہ ملاں جن کی دوڑ مسیت تک تھی پھر وہی اپنے چند نیک دل ساتھیوں کے ساتھ حکومت کے علاوہ وہاں بے سہاروں کے لیے کار ہائے نمایاں سر انجام دے رہے تھے۔۔

مصنف حالِ دل بیان کرے گا کہ بھوکے کے پیٹ تک کھانا بعد میں پہنچتا تھا مگر اس کی تصویر انٹرنیٹ پر پہلے وائرل کر دی جاتی تھی۔۔

جس دین نے ایثار کا جذبہ سکھایا تھا اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگر بھوکے مہمان کو کھانا کھلایا تھا تو اسے یہ بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ خود ابو طلحہ بھوکے رہ گئے ہیں۔۔ وہاں کوئی نہ تھا جسے انہوں نے خوش کرنا تھا مگر اللہ تو عرش پر بیٹھا ہی راضی ہو گیا تھا اس نے رہتی دُنیا تک کے لوگوں کو بتا دیا کہ “یہ لوگ اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود بھوکے رہ جائیں”

میں اگر اچھے بستر پر آرام سے سونے لگوں تو میرے سامنے وہ کھلے آسمان تلے بیٹھے لوگوں کے چہرے کیوں نہیں آتے! میں کیوں ان کی اس بے چینی کو محسوس نہیں کر پاتا جو رات کو وہ سوتے وقت محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس رہنے کے لیے جو ایک چھت تھی وہ تباہ ہو چکی۔ میرے حلق سے عمدہ کھانے کیسے اتر رہے ہیں کہ میرے بھائی وہاں بے یار و مددگار بھوکے ایک وقت کی روٹی کی آس لگائے بیٹھے ہیں
مجھے اس بچی کی سسکیوں بھری آواز میں روٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے الفاط بھی کیسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔۔ مجھے اور آپ کو کائنات کی جس ہستئ مقدس نے تربیت دی ہے وہ تو خود بھوکے رہ کر اوروں کو کھلاتے تھے اور فرماتے تھے جو دے دیا ہے وہی بچا لیا ہے۔۔
تو میرے پیارے عزیزو! وقت ہے جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے اسے بچا لو اسے ضائع مت کرو.

Leave a reply