منظر جو کیمرہ میں قید نہ ہو پایا۔ تحریر: محمد اسعد لعل
صبح دیر سے اُٹھا تب تک گھر والے ناشتہ کر چکے تھے۔ فریش ہونے کے بعد کچن کی طرف منہ کیا جہاں امی الگ سے میرے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں۔ جتنی دیر ناشتہ کیا امی کی باتیں بھی سنی ،،، اگر چائے اور پُراٹھا کھانا ہے تو جلدی اُٹھنے کی عادت بنا لو یا پھراپنے لیے خودناشتہ بنالیا کرو۔۔۔رہی سہی کسر بہن نے یہ کہتے ہوے پوری کر دی کہ کر لو مزے جب تک شادی نہیں ہو جاتی پھر تم جلدی بھی اُٹھ جایا کرو گے اور ناشتہ بھی خود بنا رہے ہو گے۔۔۔یہ روز کا معمول ہے میرے لیے الگ سے ناشتہ بنتا ہے اب جب تک چائے پُراٹھے کے ساتھ امی کی ڈانت نہ سننے کو ملے ناشتہ ادھورا لگتا ہے۔
ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد لپ ٹاپ اُٹھایا اور ابھی کالم لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں بڑے بھائی کی آواز آئی اور اگلے لمحے میں بھائی کا بتایا گیا کام کرنے کے لیے گھر سے بازار جا رہا تھا۔ ٹائم تقریباً پونے بارہ کا ہو چکا تھا اور سر پہ جیسے سورج آگ برسا رہا ہو۔ راستے میں ایک گدھا گاڑی دیکھی جس پر سامان لدا ہوا تھا وہیں بچوں کے ساتھ اُن کے امی اور ابو بھی بیٹھے تھے۔ گدھا گاڑی کے ساتھ ایک کتا بھی تیز تیز قدم اُٹھاتے چل رہا تھا یقیناً یہ اُن کا پالتو کتا تھا ۔یہ لوگ شاید خانہ بدوش تھے۔
بچوں کے ہاتھ میں ایک ایک قلفی ہے جسے وہ بڑے مزے سے کھا رہے ہیں۔ بچوں کا سارا دھیان قلفی پر ہے اُن کی آنکھوں میں الگ سی چمک دکھائی دی اور جیسے ایک ہی بات اُن کے ذہن میں چل رہی ہو کہ یہ قلفی کیسے دیر سے ختم ہوگی۔گرمی کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے لگتا ہے کہ بچے آدھی قلفی ہی کھا سکیں گے اور آدھی قلفی گُھل کر ٹپک جائے گی۔
یہ منظر میں تصویر کی صورت میں قید کرنا چاہتا تھا لیکن موبائل ریڈی کرنے کا وقت نہ تھا۔یا تو منظر دیکھتا یا پھر ہمیشہ کی طرح ہڑبڑاہٹ میں نہ تو تصویر بنا سکتااور نہ ہی منظر دیکھ پاتا۔ لیکن بازارکےکام سے فارغ ہو کر گھر واپس آنے پر سب سے پہلا کام جو میں نے کیا وہ اس منظر کو قلم بند کرنے کا تھا۔
اس کے بعد اب میں اپنا اگلا کالم لکھنے بیٹھوں گا جسے مکمل ہونے کے بعد آپ بہت جلد باغی ٹی وی کی ویب سائیٹ پر پڑھ سکیں گے۔تب تک کے لیے اللہ نگہبان۔
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal