امریکی صدر جو بائیڈن نے ایرانی حملوں کے بعد امریکی افواج کو اسرائیل کے دفاع کا حکم دے دیا
واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد امریکی فوج کو اسرائیل کے دفاع کے لیے فوری طور پر متحرک ہونے کا حکم دے دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر اور نائب صدر کملا ہیرس وائٹ ہاؤس میں موجود ہیں اور ایران کی جانب سے ہونے والے حملوں کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔ترجمان کے مطابق صدر بائیڈن نے امریکی افواج کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایران کی جانب سے اسرائیل کی طرف آنے والے میزائلوں کو مار گرائیں اور اسرائیل کا مکمل دفاع کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اپنے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ "امریکا اسرائیل کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور ہم خطے میں موجود اپنے اہلکاروں اور مفادات کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں گے۔”
ایران کی جانب سے یہ حملہ اس وقت ہوا جب پاسداران انقلاب نے اسرائیل پر 400 بیلسٹک میزائل داغ دیے۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے فوری طور پر جنگی کابینہ کا اجلاس طلب کیا اور ہنگامی صورتحال کا جائزہ لیا۔ امریکی صدر نے بھی قومی سلامتی ٹیم کی میٹنگ بلالی ہے تاکہ خطے کی موجودہ صورتحال پر غور کیا جا سکے۔ایرانی پاسداران انقلاب نے حملے کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ یہ کارروائی حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کا بدلہ ہے۔ پاسداران انقلاب نے مزید دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے کوئی جوابی کارروائی کی تو ایران ایک بار پھر اسرائیل کو نشانہ بنائے گا۔
اسرائیلی وزیردفاع نے ایک سخت بیان میں کہا ہے کہ ایران کو اس حملے پر پچھتانا پڑے گا، اور اسرائیل کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی اس کارروائی کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔دوسری جانب امریکی میڈیا نے خبردار کیا تھا کہ ایران اگلے 12 گھنٹوں میں اسرائیل پر حملہ کرسکتا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل میں موجود امریکی سفارتکاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بم شیلٹرز کے قریب رہیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں مزید کشیدگی کا باعث بن رہی ہے، جہاں پہلے ہی مختلف ممالک کے درمیان تنازعات جاری ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت کے پیش نظر، یہ بحران عالمی سطح پر شدید سیاسی اور عسکری ردعمل کا سبب بن سکتا ہے۔