:11 ستمبر2001 سے 11 ستمبر 2021 امریکہ کی افغانستان پرچڑھائی سے رسوائی تک کا سفر

0
25

لاہور::11 ستمبر2001 سے 11 ستمبر 2021 امریکہ کی افغانستان پرچڑھائی سے رسوائی تک کا سفر،دنیا جانتی ہے کہ

 

 

 

آج 11 ستمبر 2021 ہے ، پچھلے 20 سال سے دنیا میں اس حادثے پرمباحثے اورگفتگو اس دن سے ہوتی آرہی ہے لیکن اس بار کا 11 ستمبر 2001 کے 11 ستمبر سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ،اس بار کے 11 ستمبر نے پچھلے 20 سال کی تاریخ کو نئے سرے سے رقم کردیا ہے

گیارہ ستمبر 2001ء دنیا کی تاریخ کا وہ افسوس ناک سنگ میل تھا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ امریکا میں چار فضائی مسافر بردار طیارے اغوا ہو کر خودکش انداز میں امریکی سرمایہ دارانہ برتری کی علامت ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیے گئے۔

 

 

دنیا کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ نیویارک میں ہونےوالے 11 ستمبر 2001 کے دن  دو جہاز کے ٹکرانے سے 2996 لوگ مارے گئے تھے۔ پھر اس کے بعد جس طرح امریکہ نے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کا اس کے بارے میں ہرکوئی جانتا ہے ،

 

 

یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس واقعہ کے حوالے سے امریکیوں اوراتحادیون کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے اسامہ بن لادن یعنی القاعدہ ہے لیکن مسلمان اس کو قبول کرنے کے لیے ہرگزتیار نہیں تھے

 

 

پھریہ بھی دیکھنے کو ملا کہ یہ بھی باتیں سننے کو ملیں  کہ اس حادثے میں کوئی بھی یہودی نہہیں مرا جبکہ حقائق یہ ہیں کہ 400 سے زائد یہودی لقمہ اجل بنے

 

نائن الیون ان تاریخی واقعات کا حصہ بن چکا ہے جو ہمیشہ اسرار کی دھند میں لپٹے رہیں گے۔ امریکہ کے مطابق یہ واردات القاعدہ نے کی جبکہ القاعدہ بھی فخر سے اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے

 

 

تجزیہ نگاروں اور مفکرین کا تو یہ کہنا ہےکہ  نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہی نہیں وہ 2 طیارے گرے تھے بلکہ پوری دنیا کے سیاسی ، معاشی ، داخلی استحکام پر ان کا ملبہ گرا۔

 

 

اس وقت امریکی میڈیا کہہ رہا تھا کہ پہلا طیارہ شمالی ٹاور سے آٹھ بج کر 45 منٹ پر ٹکرایا۔ عمارت میں 102 منٹ تک آتشزدگی رہی اور پھر 10 بج کر 28 منٹ پر یہ صرف 11 سیکنڈ میں گِر گئی۔

 

 

پہلے طیارے کی ٹکر کے 18 منٹ بعد ایک دوسرا طیارہ جنوبی ٹاور سے ٹکرایا۔ اس میں 56 منٹ تک آتشزدگی ہوئی اور پھر نو بج کر 59 منٹ پر یہ نو سینکڈ میں گِر گیا۔

 

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں  19 لوگ شامل تھے جن کا تعلق القاعدہ سے تھا، 4 مسافر طیارے3 طے شدہ اہداف کے ساتھ امریکا کے مختلف ہوائی اڈوں سے روانہ ہوئے تھے جن میں سے 2 طیارے نیویارک کی عمارتوں سے ٹکرائے تھے۔

 

امریکی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ  ایک نے امریکا کے شعبۂ دفاع کے صدر دفتر پنٹاگون پر حملہ کیا جس میں 189 افراد جان سے گئے۔ اسی دوران پنسلوانیا میں طیارہ گر کر تباہ ہونے سے 44 افراد ہلاک ہوئے۔

 

اس موقع پر اس جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والے اسلامو فوبیا کا ذکرکرنا ضروری ہے اس حادثے نے مسلمانوں کے لئے سنگین مشکلات کو جنم دیا، امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنادی گئیں اورانہیں بے روزگاری اور ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا۔

صورتحال یہاں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کو نفرت اورحقارت سے دیکھا جانے لگا، محض شک کی بنا پر نوجوانوں کو گرفتار کرکے سزائیں بھی دی گئیں، دنیا دوحصوں میں بٹتی چلی گئی

دنیا اس سانحے کو نائن الیون کے نام سے جانتی ہے ، وہ 4 جہاز جو امریکی سرزمین پر گرے تھے انہوں نے یکدم اسلام کے بارے میں اقوام عالم کا نظریہ تبدیل کرکے رکھ دیا ۔

 

اس واقعہ کےبعد امریکا نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی حوالگی کا افغان طالبان سے مطالبہ کیا ۔ یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس وقت افغان طالبان کے انکار پر اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے کانگریس سے قانون منظور کرایا  تھا ،

 

 

امریکی صدر بش کے منظورکرائے گئے قانون کےتحت امریکا جہاں ضروری سمجھتا اپنی عوام اور ملک کے تحفظ کے لیے طاقت کا بھرپور استعمال کرسکتا تھا ۔

 

 

امریکہ نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کیا جائے لیکن پھر افغان طالبان کے مسلسل انکار کے بعد امریکا نے 7 اکتوبر 2001کو آپریشن انڈورینگ فریڈم کے نام سے افغانستان پر حملہ کردیا ۔

 

افغان طالبان کی حکومت کے خلاف جنگ میں امریکا کا بھرپور ساتھ اتحادی فوج نیٹو نے بھی دیا ۔ امریکا نے اسے ” وار آن ٹیرر ” کا نام دیا ۔ پاکستان بھی ماضی کی طرح امریکا اتحادی بنا۔ طالبان کی حکومت گرادی گئی اور حامد کرزئی کو 2002میں افغانستان کا صدر بنادیا گیا

 

 

چند سال پہلے سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے دورمیں سعودی عرب پربھی الزامات لگائے گئے تھے کہ سعودی حکومت بالواسطہ ان حملوں کی حمایت کرچکی ہے لیکن سعودی عرب کے سخت ردعمل نے امریکہ کویہ الزامات واپس لینے پرمجبور کردیا اوراب پھرموجودہ صدر جوبائیڈن نے پھرشگوفہ چھوڑا ہےکہ سعودی عرب کے ان حملے سے تعلقات ہوسکتے ہیں اس پر تحقیقات ہونی چاہیے لیکن اس بارپھرسعودی عرب نے دلیرانہ موقف اپنا کران الزامات کو مسترد کردیا ہے

بہرکیف بات ہورہی تھی کہ نائن الیون کے حملوں نے پاکستان پراس کے کیا اثرات مرتب کیے یہ ہرپاکستانی بہترجانتا ہے ،

پھر دنیا نے دیکھا کہ دو ہزار ایک کے حملوں کے چند ہفتے بعد ہی امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دی تھی ، پاکستان کو بھی دھمکی دی گئی کہ یا تو وہ امریکہ کا اتحادی بننے کے لیے مثبت جواب دے یا پھرافغان طالبان کا حامی ہونے کے ناطے عالمی دنیا کے ردعمل کے لیے تیار رہے ، جس پر پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ نے پاکستان کواس دلدل سے نکالنے کےلیے پاکستان کومحفوظ رکھنے کے  لیے اتحادی بننے کا فیصلہ کیا ، اس جنگ کے آغاز سے آج تک پاکستان میں یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ آیا یہ پاکستان کی جنگ ہے بھی یا نہیں۔

 

 

پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے امریکہ کا ساتھ دینے کے اس فیصلے نے پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا حصہ بنا دیا تھا جس کے نتیجے میں‌ 50 لاکھ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے ساتھ عسکریت پسندوں اور جنگجوئوں نے بھی اپنا راستہ بنایا اور پاکستان ایک ایسی جنگ کا حصہ بن گیا جس سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا، اس جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی اور اس کی معیشت کو 152 ارب ڈالر کے نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں، دنیا میں کسی دوسرے ملک نے اتنی بھاری قیمت ادا نہیں کی

 

 

 

بات ہورہی تھی کہ ایک طرف پاکستان کومجبورا سہولت کار بننا پڑا تو دوسری طرف اس وقت کی حکومت کواسلام پسندوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا،

 

پھر دنیا نے وہ دن بھی دیکھا جب امریکہ نے ان حالات میں حملہ کیا کہ افغانستان میں طالبان مخالف گروہ شمالی اتحاد، جنھیں اتحادی افواج کی حمایت حاصل تھی، کابل میں داخل ہونے ے تھے۔ تورا بورا پرامریکہ نے سخت حملے کیئے تھے اورامریکہ کا خیال تھا کہ ان مقامات پراسامہ بن لادن اوران کے ساتھی چپھے پوئے ہیں

 

 

افغانستان پرسخت ترین فضائی حملے کےبعد امریکہ کے اتحادیوں اورافغآنستان میں افغان طالبان کے مخالفین جنہیں شمالی اتحاد کانام دیا جاتا ہے انہوں نے دیگر شہروں پر بھی فوری قبضہ کر لیا گیا۔

 

 

اس کے بعد وہ وقت بھی آیا جب 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کوامریکی نیوی کے کمانڈوز نے مارنے کا دعویٰ کیا جو آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ آخراسامہ کومارنے کے بعد پھراس کی موت کوکیوں چھپایا جارہا ہے

پھر اس کے بعد ملاعمر کی وفات ہوتی ہے اوراس دوران افغانستان میں افغان طالبان نے پھراپنے قدم مضبوط کرنے شروع کردیئے اور وہ وقت بھی آیا جب افغان طالبان نے امریکہ ، نیٹو کے 30 ممالک سمیت بھارت ، اسرائیل ،اور پھرکچھ ہمسائے اتحادیوں کو شسکست فاش دی

امریکی اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد رواں ماہ طالبان نے بہت تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ بہت سے صوبائی دارالحکومتوں کو زیر کنٹرول کرنے کے بعد 14 اگست کی شام طالبان کے کابل کے نواحی علاقوں میں پہنچنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

 

طالبان کی افغان دارالحکومت میں تیزی سے پیش قدمی کی اطلاعات کے بعد صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر روانہ ہو گئے اور طالبان نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔

 

پھر افغانستان سے امریکی اوراتحادیون کو جورسوائی کا سامنا کرنا پڑا تاریخ اسے ہمیشہ یاد رکھے گی ،یہی وجہ ہے کہ چند دن پہلے کابل ایئر پورٹ پرایسے مناظردیکھنے کو ملے جن کے بارے میں دنیا کے ممتاز دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی رسوائی شاید اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی

 

 

اس جنگ مین پاکستان کو جہاں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا وہاں آج دنیا پاکستان کی قربانیوں کی بھی معترف ہے ، دنیا جانتی ہے کہ افغانستان سے جان بچانے میں صرف پاکستان ہی کردار ادا کرسکتا ہے

 

 

 

اس جنگ میں جہاں لاکھوں کی تعدادمیں افغان شہری جانحق ہوئے اورلاکھوں ہی بے گھرہوئے وہاں افغانیوں پرحملہ کرنے والوں کو بھی بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا جس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑےگا

 

 

 

امریکہ نے اگرچہ افغانستان میں اپنا فوجی مشن 31 اگست تک ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے تاہم اس طویل جنگ کے دوران خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیا جائے تو ان 20 برسوں میں کھربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، جب کہ کئی قیمتی جانیں بھی حملوں کا نشانہ بنے۔

یونیورسٹی ہارورڈ کے کینیڈی سکول اور براؤن یونیورسٹی کے منصوبے ’جنگ کی قیمت‘  مین کچھ اعدادو شمار بتائے گئے ہیں جن کے مطابق افغانستان میں 2 ہزار 448 امریکی فوجی جبکہ تین ہزار 846 امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہوئے، جبکہ دیگر نیٹو ممالک کے ایک ہزار 144 اہلکار ہلاک ہوئے۔

 

 

علاوہ ازیں افغان فوج اور پولیس کے 66 ہزار اہلکار ہلاک ہوئے، جبکہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد 42 ہزار 245 ہے۔ 51 ہزار 191 طالبان اور دیگر حکومت مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔

انہی 20 برسوں میں 444 امدادی کارکن اور 72 صحافی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 

 

امریکہ پر بظاہر القائدہ کے دہشتگردانہ حملے کی بیسویں برسی ایسی حالت میں منائی جا رہی ہے کہ امریکہ القائدہ اور طالبان کو شکست دینے کے بہانے افغانستان پر جنگ تھوپنے اور اس ملک پر بیس سال تک قبضہ کرنے کے بعد ذلت کے ساتھ باہر نکل گیا۔ امریکہ کے نکلنے اور طالبان کے افغانستان پر تسلط جمانے کی وجہ سے پوری دنیا میں بائیڈن حکومت کو خفت اٹھانا پڑ رہی ہے

 

 

اس حادثے نے دنیا پرایسے اثرات مرتب کیے کہ جہاں اس پرسیکڑوں کتابی لکھی جاچکی ہیں ، ملین بارگفتگو ہوچکی ہے وہاں‌ اس حادثے نے دنیا کو ان لمحات کو محفوظ رکھنے اوراگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے دنیا کے بڑے بڑے اداروں نے فلموں کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیے جن میں سے زیادہ مقبول ہونے والی کچھ فلمیں‌یہ ہیں‌

 

Leave a reply