اس ٹرم سے عام طور پر مطلب یوں لیا جاتا ہے کہ عدلیہ کا ایڈمنسڑیٹیو معاملات میں مداخلت کرنا یا پوچھ گچھ کرنا۔ اسکو سیاسی حکومتیں غلط سمجھتی ہیں اور اپوزیشن ٹھیک سمجھتی ہے کیونکہ اس سے حکومت کو فیصلہ لینے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ لینا پڑتا ہے تاکہ اگر عدلیہ نے پوچھ گچھ کرے تو کیا جواب دینا ہے اور اگر اس فیصلے کے خلاف عدلیہ کا حکم آگیا تو حکومتی پارٹی کی سبکی ہوگی اور ناکام سمجھی جائے گی۔ لیکن یہ ایک طرفہ سوچ ہے اور یہ اس لئے ہے کہ سب نے عدلیہ کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہی استعمال کیا اور جان بوجھ کر عدلیہ کو انتظامی معاملات میں مداخلت کا راستہ دکھایا۔
مشرف تھا تو ایک ڈکٹیٹر مگر اس نے کچھ بہترین عدالتی اصلاحات کیں اور ان میں سے ایک "سو موٹو” کا قانون۔ اس قانون کے مطابق عدالت جب چاہے جس معاملے پر چاہے از خود نوٹس لیکر کاروائی شروع کرسکتی ہے ۔ اس کا مقصد تھا کہ اگر کسی ایسے انتظامی فیصلے کے خلاف کوئی بھی عدالت جانے کی جرات نہ رکھتا ہو تو عدالت خود اس پر نوٹس لیکر اسکا فیصلہ کرے۔ اسکا بنیادی مقصد عام عوام کو عدالتی ریلیف دینا تھا جیسے کہ جسٹس ثاقب نثار نے کیا۔ وہ ہسپتالوں کو چیک کرتے تھے اور اپنی ہی عدلیہ کے سیشن ججز کے خلاف بھی سوموٹو ایکشن لیتے تھے۔ اور تو اور انہوں نے پاکستان میں ڈیمز کے مسئلے پر سو موٹو ایکشن لیا اور کچھ ایسے فیصلے کیے جسکی بنا پر پروجیکٹس لگ رہے ہیں۔ اور ان پر کام بھی ہورہا ہے عوام نے بھی اسکو بہت سراہا
عدلیہ ایکٹیویزم بنیادی طور پر ہونا ہی معاشرے میں انصاف کی فضا پیدا کرنے کے لئے تاکہ ہر شخص کو قانون کا پابند بنایا جائے۔ کوئی طاقت ور اگر کسی کمزور پر ظلم کرے تو عدالت نوٹس لیکر خود اس کی شنوائی کرے۔ اس سے معاشرے میں تحفظ کی فضا پیدا ہوگی اور ظالم اپنے ظلم سے بعض رہے گا۔ میرے خیال میں عدلیہ اپنا یہ قانون صرف اور صرف عوام کو انصاف دینے کے لئے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے۔ ہاں ملکی سلامتی اور منی لانڈرنگ کے خلاف ایکشن بھی لیا جاسکتا ہے تاکہ کرپشن کی روک تھام میں بھی یہ قانون اپنا کردار ادا کرسکے۔