5 جولائی: جب بھٹو اور جمہوریت زنجیروں میں جکڑ دیے گئے
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
5 جولائی 1977 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جو جمہوری نظام کے لیے بدترین مثال بن کر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ وہ دن تھا جب پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی آمریت کا اندھیرا ہر طرف چھا گیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کر کے نہ صرف ایک سیاسی نظام کو معطل کیا بلکہ ایک پوری نسل کے خواب، امیدیں اور سیاسی تربیت کو مسخ کر دیا۔ یہ واقعہ پاکستان کے جمہوری سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا، جس کے اثرات آج کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود سیاست، معاشرت، عدلیہ، معیشت اور صحافت میں موجود ہیں۔
مارشل لا سے پہلے کا سیاسی منظرنامہ بھی کشیدہ تھا۔ مارچ 1977 میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، مگر حزبِ اختلاف نے نتائج کو تسلیم نہ کیا اور دھاندلی کے الزامات کے تحت ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا۔ ملک میں احتجاجی مظاہرے، ہنگامے اور سیاسی کشمکش اس نہج پر پہنچ گئی کہ جنرل ضیاء الحق نے ‘ملک میں بڑھتی ہوئی انارکی’ کو جواز بنا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ جواز کتنا مصنوعی اور سیاسی تھا، اس کا اندازہ وقت نے خود کروا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ ان پر ایک سیاسی قتل کا مقدمہ بنایا گیا، جس کی نوعیت نہ صرف مشکوک تھی بلکہ عدالتی کارروائی بھی ضیاء کے زیراثر تھی۔ چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں وہ عدالتی نظام جو بھٹو کو انصاف فراہم کرنے کا پابند تھا، درحقیقت آمریت کے ہاتھوں یرغمال بن چکا تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کا بعد ازاں یہ اعتراف تاریخ کے سیاہ اوراق میں محفوظ ہے کہ عدالتی دباؤ کے باعث بھٹو کو سزائے موت دی گئی۔ اس فیصلے نے نہ صرف عدالت کی غیر جانبداری کو مشکوک بنا دیا بلکہ جمہوری عمل کے خلاف بھی ایک عدالتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے کا آغاز کیا۔
ضیاء الحق کی آمریت نے مذہب کو ریاستی ایجنڈے میں شامل کیا، اور اسے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ حدود آرڈیننس، زنا قوانین، کوڑوں کی سزائیں، سرِعام پھانسیاں اور میڈیا پر سنسرشپ ضیاء کی پالیسیوں کا حصہ بن گئیں۔ خواتین، اقلیتیں اور ترقی پسند عناصر ریاستی جبر کا نشانہ بنے۔ تعلیمی نصاب میں نظریاتی زہر بھر دیا گیا۔ آزادی اظہار رائے جرم قرار پائی اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ شاعر حبیب جالب کی نظم "ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا” اس دور کی آئینہ دار ہے۔
5 جولائی کو ضیاء نے اعلان کیا کہ نوّے دن کے اندر انتخابات ہوں گے لیکن یہ وعدہ 11 سال پر محیط آمریت میں تبدیل ہوا۔ انتخابات بار بار ملتوی کیے جاتے رہے۔ 1985 میں بالآخر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے، جس میں منتخب نمائندے ضیاء کے تابع رہے۔ سیاستدانوں کی نئی نسل فوجی نرسریوں سے تیار کی گئی، جن میں آج کے کئی سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔ آمریت کے اسی دور میں جہادی کلچر کو فروغ ملا، جس کا نقطہ آغاز افغان جہاد اور امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد تھا۔ اس کا نتیجہ شدت پسندی، کلاشنکوف کلچر، فرقہ واریت اور انتہاپسندی کی صورت میں نکلا، جو آج بھی پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد ملک میں نظریاتی تقسیم نے جنم لیا۔ بائیں بازو کی سیاست کو ریاستی بیانیے سے باہر نکال دیا گیا۔ طلبا یونینز پر پابندی عائد کی گئی، جو آج تک بحال نہ ہو سکی۔ اس مارشل لا نے نہ صرف سیاسی اداروں کو کمزور کیا بلکہ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا مستقل حق بھی دے دیا۔ یہ روایت آج بھی بدستور قائم ہے۔ آج بھی جب کبھی جمہوریت کمزور ہوتی ہے تو 5 جولائی کی پرچھائیاں محسوس ہوتی ہیں۔
اخبارات کے صفحات، ادیبوں کی تحریریں اور عوام کی زبانیں ضیاء کے دور میں بند کر دی گئیں۔ نصاب کو اس حد تک مسخ کیا گیا کہ آنے والی نسلوں کے اذہان میں آمریت اور اسلام کا ایک غیر فطری ملاپ پیوست ہو گیا۔ جمہوریت کو مغربی سازش قرار دے کر عوام کو آمریت سے محبت سکھائی گئی۔ اس پر فخر کیا گیا کہ جنرل ضیاء نے ملک کو "اسلامی ریاست” میں تبدیل کر دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دور نے پاکستانی ریاست کی روح، فکر اور سچائی کو مسخ کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر آمریت کو دوام دینے کی کوشش کی گئی، مگر تاریخ نے اسے کبھی معاف نہیں کیا۔ بھٹو کو ختم کر کے جو خلا پیدا کیا گیا، وہ آج بھی پر نہیں ہو سکا۔ ان کا قتل ایک سیاسی قتل سے زیادہ قومی ضمیر کا قتل تھا۔ بھٹو نے کہا تھاکہ "تاریخ مجھے بری کردے گی” اور آج وہ تاریخ واقعی ضیاء کو آمریت کی علامت اور بھٹو کو جمہوریت کا استعارہ قرار دیتی ہے۔
جب جب پاکستان میں جمہوریت کی بات ہوتی ہے تو 5 جولائی یاد آتا ہے۔ جب جب کوئی آئین کی بالادستی کی بات کرتا ہے تووہ ذوالفقار علی بھٹو کے انجام سے عبرت سیکھتا ہے۔ آج بھی ضیاء الحق کے نظریاتی وارث مختلف شکلوں میں موجود ہیں جو کبھی مذہب کے نام پر، کبھی حب الوطنی کے پردے میں تو کبھی احتساب کے نعرے میں جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں۔
یہ دن ایک یاددہانی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور جب تک عوام اپنے ووٹ، اپنی آواز اور اپنے اداروں کا دفاع نہیں کریں گے، مارشل لا جیسے سانحات بار بار جنم لیتے رہیں گے۔ ہمیں تاریخ سے سیکھنا ہو گا کہ جو قومیں آمریت کو قبول کرتی ہیں، ان کے مستقبل اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ 5 جولائی کا مارشل لا صرف ایک رات کا حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا زلزلہ تھا جس کی آفٹر شاکس آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔