جنگیں، بغاوتیں کیوں ؟ کیسے؟ اور کب تک؟ تحریر۔ آمنہ امان

حضرت آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہوئی لڑائی بظاہر تو اک قتل پر ہی تھم گٸ تھی مگر درحقیقت وہ صرف شروعات تھی آدم کے بیٹوں کی تعداد بڑھی تو لڑاٸیاں جنگوں میں بدلتی چلی گٸیں اور وجوہات بھی بڑھتیں گٸیں۔
کہتے ہیں زر ۔زن اور زمین ہی انسانوں کے درمیان وجہ جنگ رہے ہیں تاریخ دیکھیں تو کسی حد تک وجہ درست معلوم ہوتی ہے۔ قدیم یونانی دیو مالائی داستانوں کے مطابق تاریخ کی سب سے بڑی جنگ ۔۔جنگ ٹراۓ یا ٹراۓ کی جنگ ہے وجہ فساد زن یعنی شہزادی ہیلن تھی اس طرح زمین کی خاطر سکندراعظم مقدونیہ سے نکلا اور آدھی زمین تخت وتاراج کرگیا۔ انگریزوں نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھا اور زر کیلیے لاکھوں میل دور آگۓ اور کٸ چھوٹی بڑی جنگوں کے بعد ہندوستان پر قبضہ کیا۔ مگر کیا جنگوں کی صرف یہ تین وجوہات ہی ہیں؟
نہیں اک پہلو مذہب بھی ہے ۔ اور تاریخ میں سب سے زیادہ جنگیں مذہب کو لے کر ہی ہوٸیں اور اب تک ہوتی چلی جارہیں ہیں ۔یہ جنگیں پہلے تو حقیقت میں کلمتہ اللہ کی سربلندی کے لیے کی جاتیں تھیں ۔حق اور سچ کی فتح شیطانیت کا خاتمہ اور پوری دنیا پر اللہ کا حکم امن اوسلامتی کے راج کے نفاز کے لیے تھیں مگر رفتہ رفتہ ماضی کی جنگوں کی طرح یہ بھی بس اک وجہ بن کے رہ گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ممالک تو چھوڑ مذہب کے اندر بھی اپنا اپنا گروہ بنا کر فرقوں کے نام دے کر لڑتے ہیں گویا ہابیل اور قابیل کے محض نام ہی بدلے ہیں۔
درحقیقت اقتدار کی خواہش اور طاقت کا حصول ہی جنگ کی اصل وجہ ہوتا ہے اپنی بات اور اپنے آپ کو صحیح منوانا اور دوسرے کو مطیع کرنا یہی ہابیل قابیل کے درمیان لڑاٸ کی اصل وجہ تھی اور یہی آج تک کی ہر جنگ کی وجہ ہے۔
اسلحے اور ٹیکنالوجی کی نت نٸ خوفناک ایجادات کے بعد اب ممالک کو کمزور کرنے کے لیے جنگ کی اک نٸ قسم سامنے آٸ ہے ففتھ جنریشن وار ۔۔محض افواہیں اڑاٸیں اور جھوٹ اتنی شدت سے پھیلا دیں کہ سچ لگنے لگے اس کا مقصد کسی ملک کی عوام کو تقسیم کرنا اور اتنی نفرتیں پھیلا دینا ہے کہ جب اتحاد درکار ہو وہ اک دوسرے پر الزامات میں مصروف ہوں۔ فرقہ واریت لسانیت اور صوباٸیت کا فروغ اس کے اہم اہداف ہوتے ہیں اور اداروں کے مابین نفرت پھیلانا بھی اس جنگ کا مقصد گویا ملک کے جڑیں اتنی کھوکھلی کر دی جاٸیں کہ اس کا انتظامی ڈھانچہ گرانے کے لیے اک ہلکا سا دھکا ہی کافی رہے شام لیبیا اور عراق اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔
جنگیں لڑنے اور اس سے بچنے کے لیے ہر ملک دفاعی بجٹ مختص کرتا ہے اور اگر زرا بھی دھیان دیں تو دفاعی بجٹ بذات خود بہت سی جنگوں اور بغاوتوں کو جنم دیتا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ کی حامل سوکالڈ سوپر پاورز کے سالانہ بجٹ کا اور خراجات کا تقابل کریں تو انسان ورط حیرت میں گم ہوجاتا ہے کہ یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
امریکہ یا چاٸنہ کا دفاعی بجٹ ہی دیکھ لیجیے کیا اس میں لاکھوں کی آرمی کی تنخواہیں یونیفارمز کھانا پینا رہاٸش پینشنز دفاعی آلات کی خریداری مشینری کی مرمت پیٹرول اور ٹریننگ کے اخراجات ہی پورے ہوجاٸیں تو بہت ہے جبکہ اک جنگی بحری بیڑا مع الات خریدیں تو سالانہ بجٹ بہت کم پڑ جاۓ تو یہ سارے باقی اخراجات کیا پورا سال روکے رکھے جاتے ہیں؟ ابدوزیں لیزر گنز حساس سینسرز کے لیس جوتے ہیلمٹ اور لباس کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں ہوتی ہے پھر یہ اخراجات کیسے پورے کیے جاتے ہیں ؟
تو چلیے دیکھتے ہیں کچھ ہوشربا انکشافات جن سے اندازہ ہو کہ سپر پاورز اپنے اخراجات کیسے پورے کرتیں ہیں۔ دنیا میں منشیات کی چالیس فیصد پیداوار برما یعنی میانمر میں ہوتی ہے یہیں تیار ہوتی یہیں سے سپلاٸ کی جاتی ہے۔دوسرا پیداواری مقام افغانستان ہے تیسرا میکسیکو اور پھر ٹیکساس۔ ان علاقوں میں کبھی امن نہیں ہوا عوام کی حالت خستہ ہے غربت اور خانہ جنگی نے عوام سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی ہیں ۔ یہی حال پٹرولیم مصنوعات کے قدرتی وساٸل رکھنے والے ممالک کا ہے۔ وہی شام عراق ہو یا تنزانیہ ان کے خزانے سے سپر پاورز خوشحال اور وہ خود تباہ حال ۔افریقی ممالک کا تو جرم بالکل ناقابل معافی ہے کیونکہ ان کی زمین سونا اور ہیرے اگلتی ہے لہذا خانہ جنگی اور بھوک افلاس ان کا مقدر ٹھہرا دٸیے گۓ۔ اب منشیات کی سمگلنگ ہو یا سونا ہیروں اور پیٹرول کی لوٹ مار ان سب کے پیچھے آپ کو سپر پاورز کی ایجنسیز کا ہاتھ ملے گا اور اس ملک کی عوام کے ہاتھوں میں انہی سپر پاورز کا بنایا اسلحہ نظر أۓ گا۔ کسی بھی ملک میں کوٸ بھی قیمتی معدنیات ہوں یا اس کی جغرافیاٸ اہمیت ہووہاں جنگ یا بغاوت ضرور ہوگی اور اسلحہ سپر پاورز کا دکھتا ہے۔ یعنی اک پنتھ دو کاج۔ آپس میں لڑوا کر اسلحہ بیچ کر پیسے بناٶ اور ساتھ وہاں کے وساٸل بھی لوٹو۔ تو جناب یوں بناۓ جاتے ہیں بحری بیڑے جدید سیٹلاٸٹ اور ابدوزوں کے ذخیرے۔
اب ایسے میں کسی ملک کی ارمی حلال طریقے سے بیکریز سیمنٹ اور ہاٶسنگ سوساٸیٹیز بنا کر بجٹ کی کمی پورا کرنا چاہے تو اس کے خلاف پروپیگنڈا آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اب سوال تو یہ ہے کہ پورے پورے ملک تباہی اور بربادی کی آگ میں جھونک کر انسانیت کے علمبردار بن جانا اور پھر سپر پاور کہلانا کیوں؟
مذہب کے لیے لڑنے والوں میں نوے فیصد لوگوں کی اپنی زندگی اسی مذہب کے أصولوں کے خلاف ہوتی ہے جس کی خاطر وہ دوسرے کی جان تک لے لیتا ہے۔ تو کیا وجہ مذہب ہے؟ یا اپنے آپ کو درست ثابت کرنا اپنی بات منوانا اور دوسرے کو غلط ثابت کرنا؟
آج یہودیوں کو دجال کا انتظار ہے ہندو کالکی کے اوتار کے انتظار میں ہیں عیساٸ حضرت عیسی کے منتظر مسلمان امام مہدی کے منتظر ہیں مگر کیوں؟
کیا یہ سب اپنی اپنی زندگیاں اپنے اپنے دین ومذہب کے عین مطابق گزار رہے ہیں ؟ یا گزارنے کو تیار ہیں؟ ہرگز نہیں یہ بس اس وعدے کے ایفا ہونے کے منتظر ہیں کہ ان کا نجات دہندہ اۓ گا اور پھر اس کے ساتھ مل کر وہ باقی سب کا خاتمہ کرکے پوری دنیا پر راج کریں گے۔ مطلب خواہش وہی ہابیل وقابیل والی ہے اپنا آپ درست منوانا اور دوسرے کو زیر کرنا۔ مگر انسان اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے خالق کی زمین پر جتنا بھی کشت وخون بہا لے ہوگا وہی جو خالق چاہے گا رسی درزا ضرور ہو گی مگر کھینچی بھی اتنے زور سے جاتی ہے کہ سپر پاورز منہ کے بل آگرتیں ہیں۔ اپنی انا کی تسکین اور غرور کی خاطر چاہے ساری نسل انسانی کا خاتمہ کردے کوٸ الله أكبر کی گونج برقرار رہے گی۔ ان شاء اللہ
رہے نام اللہ کا۔
@AmanHarris

Comments are closed.