کامیاب زندگی کا حصول مگر کیسے؟؟؟ تحریر:- محمد عبدالله اکبر

0
34

کامیاب زندگی کا حصول مگر کیسے؟؟؟
تحریر:- محمد عبدالله اکبر

اس دنیائے ہست و بود میں کامیاب انسان وہی سمجھا جاتا ھے جو کسی کام کے آغاز کے بعد اس پر دوام حاصل کرتا ھے، اور دنیا بھی ایسے ہی لوگوں کو فالو کرتی ھے۔ جبکہ کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائے بغیر کسی کام کو ادھورا چھوڑ دینے والے کو یہ دنیا بہت پیچھے چھوڑ جاتی ھے۔ لہٰذا کسی بھی شخص کو اس دنیا میں اپنا لوہا منوانے کے لئے، خود کو کامیاب ترین شخص کہلوانے کے لئے مستقل مزاجی کی عادت کو اپنانا ھوتا ھے۔۔۔!!
یہ دنیا جو فانی ہے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اتنا سخت اصول اپنانا ھوتا ھے تو ھم کیسے یہ تصور کر سکتے ھیں کہ جہاں ہمیشگی کی زندگی ھوگی اس کی تیاری میں ھم بغیر مستقل مزاجی اختیار کیے ہی کامیاب ھو جائیں گے۔
لا شک کہ ھدایت جیسی عظیم نعمت جس کے حصے میں آ جائے اس جیسی خوش نصیبی اور کہاں حاصل ھو لیکن صرف ہدایت کا مل جانا ہی کافی نہیں ھے بلکہ شریعت اسلامی میں اصلاً مقصود ھدایت پر استقامت ھے۔۔
ھدایت بہت سوں کو مل جاتی ھے لیکن ھدایت پر استقامت ہر ایک کے حصے میں نہیں آتی۔
ھدایت حاصل ھوئی اور اس پر سختی سے ڈٹ جانا، شریعت اس چیز کی متقاضی ھے۔
جیسا کہ الله سبحانه و تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
((فاستقم کما امرت و من تاب معک))
” اپ ثابت قدم رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ھے اور وہ بھی جس نے آپکی معیت میں رجوع الی الله کو اختیار کیا”

اسی طرح بار ہا رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی تاکید فرمایا کرتے تھے جیسا کہ شداد بن اوس رضی الله عنه کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب لوگ سونا و چاندی کو ذخیرہ کررہے ھوں تو تم ان کو کلمات کو ذخیرہ کرنا ((اللھم انی اسئلک الثبات فی الامر والعزیمۃ علی الرشد))
"یا الله میں تجھ سے سوال کرتا ھوں دین پر ثابت قدمی کا اور بھلائی پر پختگی کا۔”
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آتا ھے کہ سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کے استفسار پر جناب محمد کریم صلی اللہ علیہ و سلّم نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے اور اس پر ڈٹ جانے کا حکم دیا۔
آیات اور احادیث سے یہ بات مترشح ھوتی ھے کہ دین پر سختی سے ڈٹ جانا ہی اصل کامیابی کا ذریعہ ھے۔ جب دین پر استقامت اختیار کرنے کا ارادہ کرلیا تو پھر اس چیز کی قطعاً گنجائش نہیں کہ دن میں ایک آدھی نماز پڑھ لی یا آئے روز کوئی نا کوئی نماز چھوڑ دی جائے اور دلیل میں یہ پیش کیا جائے کہ الله بڑا معاف کرنے والا ھے، بڑا غفور رحیم ھے۔

ھمارے ایمان ہی اتنے پختہ ھیں کہ برادری کو وجہ بنا کے ھم دین پر قائم نہیں رہ سکتے، ھمارے ذہنوں میں ایک بات رچ بس گئی ھے، بہت معذرت کے ساتھ ھم نے اسی بات کو خدا بنا لیا ھے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
ھم دین کے اصولوں کو اپنی عملی زندگی پر لاگو کرنا چاہتے ھیں لیکن برادری، معاشرہ ھماری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ھے۔
ایک طرف ھمارا ایمان ھے اور ایک طرف ان لوگوں کا ایمان ھے کہ جن کے بارے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے پہلے لوگوں کا حال یہ تھا کہ ایک آدمی کو پکڑا جاتا، زمین میں گاڑا جاتا، آرا چلایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر چیر دیا جاتا، لوھے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت اور ہڈیوں کو نوچا جاتا۔ لیکن یہ چیزیں بھی ان کے ایمان کو ڈگمگا نا سکیں۔
اسلام ایسی ہی استقامت کا تقاضا کرتا ھے کہ کسی بھی تنگی، مصیبت کو دیکھ کر دین اسلام سے پیچھے نا ہٹا جائے بلکہ دوام اختیار کیا جائے۔
استقامت حاصل کرنے میں اگرچہ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ھے، یہ کوئی آسان فعل نہیں ھے اور یہ رب تعالیٰ کی اعانت و نصرت کے بغیر ممکن نہیں ھے لیکن ان میں ھمیں خود بھی آہستہ آہستہ کوشش کرنی چاہیے۔
نفس امارہ کو نفس مطمئنہ میں بدلنے کے لئے بہت لمبا سفر کرنا پڑتا ھے، بہت محنتیں درکار ھوتی ھیں لیکن ھمیں گھبرانا نہیں ھے بلکہ جس چیز کو ایک دفعہ اختیار کر لیا اس پر ڈٹ جانا ھے اور پھر اللہ کریم ھمارے لئے رستے کھولتا جائے گا اور پھر نعیم سرمدی میں ان شاءاللہ کامیابی ھمارا مقدر ھوگی اور انعام میں ھمیں جنت الفردوس عطا کی جائے گی اور اس کامیابی کا اصل انعام دیدارِ الٰہی کی صورت میں دیا جائے گا۔ ان شاءالله

Leave a reply