کب تک عوام کو فریب دیا جاتا رہے گا ,تجزیہ ,شہزاد قریشی

0
31
shehzad qureshi

آج سیاست میں ایسے لوگ آگئے ہیں جو بے باک نہیں مُنہ پھٹ ہیں اور سیاسی بدتمیز ہیں جس سے سیاسی زندگی بدصورت ہو گئی ہے۔ ملکی سیاست نظریاتی لوگوں میں رائج رہی جو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے سیاست کرتے رہے جس طرح روز مرہ کھانے پینے کی چیزوں ادویات میں ملاوٹ ہو چکی ہے اسی طرح آج کی سیاست مین بھی ملاوٹ نمایاں نظر آتی ہے اور سیاست میں ملاوٹ جمہوریت کے لیے خطرہ ثابت ہوتی ہے ۔ اور پھر جس ملک میں اقتدار کا نشہ سر چل کر بولے وہاں جمہوریت کیسی پارلیمنٹ کی بالادستی ،قانون اور آئین کی بالادستی کیسی ۔ قانون کی حکمرانی صر ف نعروں تک محدود ہو کر رہ جائے ۔ وہاں لینڈ مافیا ۔ قبضہ مافیا کاراج ہوتا ہے جس ملک میں بڑے بڑے پراپرٹی ٹائیکتوں حکومتوں کی تبدیلی کے فیصلے کریں سیاسی جماعتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کریں وہاں جمہوریت کیسی پارلیمنٹ کی بالا دستی کیسی ؟ پھر ایسے میں عوام کی اکثریت صدا بلند کرتی ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے ؟ کاروباری فریاد کرتا نظر آتا ہے کہ وہ تباہ ہو رہا ہے ۔ وہاں کاروبار بند ک ارخانے بند ہوتے ہیں دکانوں کے سامنے عوام سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں ۔

ملک عالمی مالیاتی اداروں کا محتاج بناد یا گیا مزدور بھوکے مررہے ہیں ۔ بجلی نایاب۔ بجلی ،گیس ،پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ۔ تخت نشین عوام کا خون چو رہے ہیں آخر یہ ملک میں کیا ہورہا ہے عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے حکومت کس کی ہے کون چلا رہا ہے کہاں سے فیصلے ہورہے ہیں۔ آج جو کچھ ملک اور عوام کے ساتھ ہو رہا ہے کیا یہ جمہوریت ہے؟ کیا یہ جمہوریت کے ثمرات ہیں؟ جس ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے سودے بازیاں ہوں وہاں جمہوریت کیسی ؟اقتدار کے سوداگروں نے ملک اور عوام دونوں کو عالمی دنیا میں بدنام کرکے رکھ دیا آج عالمی دنیا میں ہمارے ملک اور ہماری جمہوریت کا مذا ق اڑایا جارہا ہے ۔ صوبہ سندھ مین توبلدیاتی انتخابات نے ہلا کر رکھ دیا ہے اور الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان ہے جو کچھ بلدیاتی انتخابات میں اور جو نجی ٹیلی ویژن پر دکھایا کیا آمدہ قومی انتخابات بھی ایسے ہی ہوں گے کیا الیکشن کمیشن لااینڈر آرڈر کے ادارے اسی طرح بے بس ہوں گے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟معیشت کا بحران سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ عوام پر ہر روز مہنگائی کے حملے ہو رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیاں ایک بہت بڑا فریب ہے ۔ آخر کب تک عوام کو فریب دیا جاتا رہے گا۔ کوئی مظلوم بن کر عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے تو کوئی نجات دہندہا ور ہیرو بن کر مقبول ہونا چاہتا ہے ۔ انہیں عوام کے دکھوں سے کوئی غرض نہیں۔

Leave a reply