کشمیر، بابری مسجد اور ہندو راشٹر، بھارتی پالیسی ،تحریر: انشال راؤ

0
38

کشمیر، بابری مسجد اور ہندو راشٹر، بھارتی پالیسی

تحریر: انشال راؤ
اسرائیل کے ناجائز قیام کے بعد اسرائیلی عدالتوں نے انصاف کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھدیں، یہودیوں نے مظلوم فلسطینیوں کی املاک پر قبضے کرلیے عدالتوں میں بطور ثبوت دلیل پیش کی جاتی کہ دو ہزار سال پہلے یہ جائیداد میرے دادا کے نانا کے فلاں فلاں کی تھی اور سہیونی کورٹیں اسے حق بجانب قرار دے دیتیں بالکل اسی طرح بھارتی سپریم کورٹ نے ہندوتوائی دہشتگردوں کے بےبنیاد دعوے پر تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ دے دیا، مسلمانان برصغیر کو 1947 کے فسادات کے بعد پے در پے سانحات سے گزرنا پڑا لیکن ان میں کشمیر پر بھارتی ناجائز قبضہ اور شہید بابری مسجد کا سانحہ عظیم ترین ہے جس بنا پر بالخصوص مسلمانان ہند ایک دوراہے پر کھڑے نظر آتے ہیں کیونکہ مسلم قیادت بھی بےبسی و اضطراب میں مبتلا ہے، نئی نسل کو جہاں اسلام کی تاریخ میں دلچسپی نہیں وہیں بابری مسجد کی تاریخ و شہادت سے نابلد ہے، ہندوتوا دہشتگردوں کے پروپیگنڈے کے مطابق بابری مسجد کو رام مندر کی جگہ تعمیر کیا گیا جوکہ سراسر بےبنیاد اور من گھڑت داستان سے زیادہ کچھ نہیں، بابری مسجد کی تاریخی حیثیت اس کے کتبے پر کندہ اشعار سے ثابت ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ "شاہ بابر کے حکم سے اس کے ایک امیر باقی نے اس مسجد کو بنوانے کی سعادت حاصل کی، جو اب فرشتوں کے اترنے کی جگہ ہے خدا کرے یہ کار خیر باقی رہے” اس سے ظاہر ہے کہ بابری مسجد کو شاہ بابر کے ایک امیر باقی نے بنوایا ہے اور بابر کے کہنے یا اس کی خواہش پر یا اس کے زمانے میں بنی، اس کے علاوہ بھی کچھ کتبات پر شعر و تحریریں کندہ ہیں جن میں حمد و ثناء یا دعائیہ کلمات رقم ہیں، ان کتبات کی سند کو کسی اعتبار سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، الزام لگایا جاتا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی کو مسمار کرکے بنائی گئی، اگر ایسا ہوتا تو بابر اور اس کے امیر اپنے فاتحانہ غرور میں یہ ضرور لکھتے کہ شرک و کفر کی جگہ کو منہدم کرکے یہ مسجد بنائی گئی، بابر کی مذہبی رواداری کا اندازہ اس کی اپنے بیٹے کے نام وصیت سے لگایا جاسکتا ہے کہ "اے فرزند! ہندوستان کی سرزمین مختلف مذاہب سے بھری پڑی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس کی بادشاہت عطا کی، تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے مذہبی تعصبات کو مٹادو اور ہر مذہب کے طریقے سے انصاف کرو، کسی کی عبادت گاہوں و مندروں کو منہدم نہ کرنا، عدل و انصاف اس طرح سے کرو کہ بادشاہ رعایا اور رعایا بادشاہ سے خوش رہے” یہ تحریر اسی سال کی ہے جس سال بابری مسجد کو تعمیر کیا گیا تھا اس وصیت نامہ کو ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنی کتاب India Divided میں درج کیا ہے، تزک بابری میں بابر نے مندروں کی عمارتوں کا ذکر لطف لے لے کر کیا ہے جیسا کہ گوالیار کے بت خانے کا ذکر ہے اگر بابر مندروں کے خلاف ہوتا تو گوالیار کے عالیشان مندر و بت خانے کو کبھی نہ چھوڑتا، اس کے علاوہ پروفیسر سری رام شرما اپنی کتاب Mughal Empire of India میں لکھتے ہیں کہ "ہمیں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ بابر نے کسی مندر کو منہدم کیا یا کسی ہندو کی ایذا رسانی کی محض اس بنیاد پر کہ وہ ہندو ہے” ہندو دھرم کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس قدیم مذہب میں ہزاروں پنڈت، وشنو، سوامی آئے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو بھی رام جنم بھومی کا پتہ نہ چلا اور انیسویں صدی میں آکر جنگ آزادی 1857 کے بعد انگریزوں نے یہ سوانگ رچا کہ بابری مسجد کو رام مندر منہدم کرکے تعمیر کیا گیا، انگریز نے جان لیڈن کی "میمورائز آف ظہیرالدین بابر” کے حوالے سے یہ ڈرامہ رچا جبکہ جان لیڈن کی کتاب میں ایسا کہیں بھی زکر نہیں کہ بابر نے ایودھیا میں کوئی مندر مسمار کیا سوائے اس کے کہ 1528 میں بابر ایودھیا سے گزرا، مگر پھر بھی انگریز نے لیڈن کو اپنے مقاصد کی بیساکھی بنایا، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہندووں کی کتب یا لٹریچر میں اس دعوے کا سرے سے وجود نہیں، اگر ایسی کوئی جنم بھومی یا جنم استھان ہوتا تو لازم ہے کہ کوئی نہ کوئی روایت ضرور ہوتی اور بہت سے تاکیدی نصوص بھی ہوتے، ہندوتوا دہشتگرد کسی بھی طور پر یہ ثابت نہیں کرپائے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تھا لیکن اس کے باوجود بھارتی سپریم کورٹ نے انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھدی ہیں اور یہ اشارہ دیدیا ہے کہ اب یہ ہندوتوا کورٹ ہے نہ کہ بھارتی سپریم کورٹ، اس کی وجہ یہ ہے کہ 1989 کے جنرل الیکشن میں BJP کی الیکشن مہم تین نکات پر چلائی گئی تھی ایک یہ کہ کشمیر کو بھارت میں شامل کیا جائیگا، دوسرا یہ کہ بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جائیگا، تیسرا یہ کہ بھارت کو سیکیولر ریاست کی بجائے ہندو راشٹریہ بنایا جائیگا جوکہ BJP نے اپنی پالیسی کے طور پر پیش کیے تھے اور یہی سٙنگھ پریوار کی آئیڈیولوجی بھی ہے، اسی کے بعد سے بھارت میں سناتن ہندوتوا پالیسیوں کا زور دکھائی دیتا آرہا ہے جتنے بھی کالے قوانین کشمیر میں نافذ کیے گئے وہ 1990 یا اس کے بعد کیے گئے جیسا کہ اسپیشل پاور ایکٹ جن کے تحت کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کو لائسینس ٹو کِل دے دیا گیا اور ہر جرم کی اجازت دی گئی، اس کے علاوہ بھارتی پارلیمنٹ 15 نومبر 1991 کے بل برائے قانونی حیثیت و تحفظ مذہبی عمارات کے پاس ہونے کے باوجود ہندوتوا دہشتگردوں نے سرکاری سرپرستی میں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو شہید کردیا جسے اب بھارتی سپریم کورٹ نے بھی جرم قرار دیا ہے لیکن آج تک کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی، مودی کی قیادت میں BJP سرکار نے آکر 1989 کے ہی تینوں نکات پر عمل کیا ہے سب سے پہلے کشمیر کو عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوے غاصبانہ قبضہ جمالیا ہے اور اب بابری مسجد کیس کو بھی عدالت کے زریعے ہندوتوا دہشتگردوں کی منشاء و مرضی کے مطابق نمٹادیا ہے، تیسرے نکتہ کا بھی نریندر مودی بھارتی یوم آزادی کے موقع پر اعلان کرچکے ہیں کہ اس کا مقصد بھارت کو ایک قوم یعنی ہندو راشٹر بنانا ہے جس کا عکس BJP کے مختلف دہشتگرد رہنماوں کے بیانات سے بھی صاف نظر آتا ہے جوکہ اعلانیہ کہتے آرہے ہیں کہ بھارت سے مسلمانوں و دیگر غیر ہندو مذہب کے ماننے والوں کو نکال باہر کرنا ان کا پرائم ٹارگٹ ہے، ہندوتوا دہشتگرد اب گیان واپی مسجد و متھرا کی عید گاہ سمیت دیگر 150 سے زائد تاریخی مساجد پر نظر جمائے ہوے ہیں جو بھارتی حکومت کی ایماء پر عرصے سے بند ہیں بظاہر تو یہ سرکاری تحویل میں ہیں مگر حقیقتاً یہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی و حق تلفی و مذہبی آزادی نہ دیے جانے کی پالیسی کا اظہار اور ہندو راشٹر کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہے جو خطے میں ایک نئے خطرناک محاذ کی طرف اشارہ ہے اور مسلمانوں سے ناروا سلوک ریاستی پالیسی ہے، ہندوتوا کا خواب ہے کہ وہ تاریخ کا پہیہ پیچھے کی جانب گھمانا چاہتے ہیں تو یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ مسلمان بھی اپنی تاریخ دہرانا جانتے ہیں اگرچہ میدان سیاست کے کھلاڑی ہندوتوائی سازشوں سے دانستہ یا غیردانستہ غافل ہیں لیکن مسلمانوں میں آج بھی ٹیپو، ابن قاسم، غزنوی، غوری کی سی صلاحیت زندہ ہے اور اپنے حق و خطے کے امن کے لیے ہندوتوا دہشتگردوں کو سبق سکھانے کے لیے اٹھ کھڑے ہونگے۔

Leave a reply