کلدیپ نئیر اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کے درمیان ملاقات تحریر: انیحہ انعم چوہدری

0
26

28 جنوری 1987 کی سہ پہر پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلام آباد کے علاقے E-7 میں واقع اپنی رہائش گاہ پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ اکیلے موجود تھے کہ جب سکیورٹی افسر نے چند مہمانوں کی آمد کی اطلاع دی۔

سکیورٹی افسر نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بتایا کہ مہمانوں میں سے ایک کو وہ پہچانتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کے معروف صحافی مشاہد حسین سید ہیں۔ جو اب سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے ممبر ہیں۔  ڈاکٹر خان نے سکیورٹی افسر سے کہا کہ مہمانوں کو اندر لے آئیں اور انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھائیں۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان مہمانوں سے ملنے آئے تو مشاہد حسین سید نے دوسرے مہمان کا تعارف کلدیپ نیئر کے طور پر کرایا جو انڈین پنجاب سے تعلق رکھنے والے مشہور صحافی تھے۔

مشاہد حسین سید نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بتایا کہ کلدیپ نیئر میری شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائے ہیں۔ یہ تقریب اس ملاقات سے ایک ہفتے بعد ہونا تھی۔ چائے پیتے ہوئے ڈرائنگ روم میں موجود تینوں افراد کے درمیان انڈیا، پاکستان تعلقات، انڈین تاریخ اور ہندو مسلم تعلقات اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک کے موضوعات پر طویل بات ہوئی۔ پاکستان کا جوہری پروگرام حال ہی میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی زیر نگرانی شروع ہو چکا تھا۔

کلدیپ نیئر نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ‘میں سیالکوٹ سے ہوں اور اب نئی دہلی میں رہتا ہوں۔جوابا ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا کہ میں بھوپال سے ہوں اور اب اسلام آباد میں رہتا ہوں۔’

جب ان تینوں مہمانوں کی پاکستان کے جوہری پروگرام پر گفتگو شروع ہوئی تو کلدیپ نیئر کا کہنا تھا کہ ‘اگر پاکستان دس بم بنائے گا تو انڈیا ایک سو بم بنائے گا۔’ اس بات کے جواب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا کہ ‘اتنی بڑی تعداد میں بم بنانے کی ضرورت نہیں۔ تین یا چار ہی دونوں اطراف کے لیے کافی ہوں گے۔’

ڈاکٹر عبد القدیر خان بتاتے ہیں کہ ‘میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا  کہ ہم اس قابل ہیں کہ مختصر ترین مدت میں بم بنا لیں۔’

کلدیپ نیئر نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ ہونے والی اس غیر رسمی گفتگو کو انٹرویو بنا کر ‘لندن آبزور’ کو 20 ہزار پاونڈز میں بیچ دیا۔ یہ انٹرویو  نہیں تھا۔ یہ تو چائے پر ہونے والی محض ایک گپ شپ تھی۔’

یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی تھی جب پاکستان اور انڈیا کی فوجیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے راجستھان اور پنجاب سیکٹرز میں عالمی سرحد پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا تھیں۔

سرحد کے دونوں جانب حملہ کرنے والی بری افواج کے دستے جمے ہوئے تھے، فضائیہ ہائی الرٹ پر تھی جبکہ توپ خانے بھی سرحد کے قریب پہنچا دیاگیا تھا۔ اس بحران کو براس ٹیک (انڈین فوج کی جنگی مشق) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

پاکستان کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ ان انڈین جنگی مشقوں کا رُخ اور پیش قدمی پاکستان کی طرف ہے جو پاکستان کے سیاسی خلفشار کا شکار صوبہ سندھ پر بڑے حملے میں بدل سکتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کا جوہری پروگرام اپنے ابتدائی مراحل میں تھا اور پاکستان باقاعدہ جوہری حیثیت حاصل کرنے سے 12 سال دور تھا۔

اس زمانے میں ‘براس ٹیک’ کو پاکستان کی سالمیت کے لیے سٹرٹیجک خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔

کلدیپ نیئر کے نام سے لندن آبزرور میں شائع ہونے انٹرویو میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کے نام سے منسوب کرکے لکھا گیا کہ ‘کوئی ملک پاکستان کو ختم نہیں کر سکتا اور نا ہی ہم تر نوالہ ہیں۔ ہم قائم رہنے کے لیے بنے ہیں اور کوئی شک میں نہ رہے کہ اگر ہماری بقا کو خطرہ ہوا تو ہم ایٹم بم چلا دیں گے۔’

یہ بات بھی کلدیپ نئیر نے ڈاکٹر عبد القدیر خان سے منسوب کر کے لکھی کہ پاکستان نے ہتھیاروں میں استعمال کی سطح تک یورینیم کو افزودہ کر لیا ہے اور یہ کہ لیبارٹری میں اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد سے پاکستان میں عوام اور میڈیا نے عام طور پر یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ کلدیپ نئیر کی خبر میں مخفی اس ‘جوہری دھمکی’ نے انڈیا کو پاکستان پر کوئی بڑا حملہ کرنے سے روکا تھا۔

بی بی سی نے اپنے انٹرویو میں جب ڈاکٹر اے کیو خان سے استفسار کیا کہ کیا کلدیپ نئیر سے ان کی گفتگو سے متعلق اخباری خبر نے کشیدگی کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا تھا؟ ان کا جواب تھا کہ ‘بالکل۔ ایسا ہوا۔ اس کشیدگی کے خاتمے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی تھی۔’

‘زیادہ کردار ضیاء کی دھمکی نے ادا کیا جب وہ جے پور میں راجیو گاندھی سے ملے تھے جہاں وہ کرکٹ میچ دیکھنے گئے تھے۔ ضیاء نے راجیو سے کہا کہ اگر بھارتی فوج فوری واپس نہ ہوئی تو وہ جوہری حملے کا حکم دے دیں گے۔ راجیو اس پر گھبرا گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے بھارتی فوج کی فوری واپسی کا حکم دے دیا۔’

ڈاکٹر عبد القدیر خان بتاتے ہیں کہ براس ٹیک سے چند ہفتے قبل انھوں نے جنرل ضیاء کو ایک تحریری پیغام بھجوایا تھا کہ پاکستان دس دن کے نوٹس پر جوہری بم بنانے کے قابل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘اس سے ضیاء کو راجیو گاندھی سے بات کرنے اور دھمکی دینے کا اعتماد ملا تھا۔’

آج وہی ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان میں بڑی دشواری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں، سرکاری سطح پر بھی انکو عوامی مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہے اور حالیہ دنوں میں وہ کورونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں جن کو ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں داخل کر دیا گیا ہے۔ ہماری نیک تمنائیں اور دعائیں ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ ہیں کہ الله تعالٰی انکو جلد صحتیابی عطاء فرمائے تاکہ وہ مزید پاکستان کے لیے اچھے کام کر جائیں، جن سے آنے والی نئی نسلیں انکے کام سے استفادہ حاصل کر سکیں۔

Leave a reply