کام والیاں تحریر: حنا

0
19

ہمارے معاشرے میں گھروں میں کام کرنے والی عورتوں بچیوں لڑکیوں کو نام دیا جاتا ہے ۔کام والیاں ۔۔۔۔کہ یہ تو کام والی ہے ۔۔وہ سارا دن ہمارا کام کریں گی ۔ہمارے جوٹھے برتن دھوئیں گی ۔۔خون پسینہ ایک کر دیں گی صبح سے شام کام کر کر کہ۔چاہے گھر میں سو لوگ کی دعوت ہو یا دس لوگ کی ۔برتن دھونا ان پر فرض ہو جیسے ۔۔بعد معاوضے میں انھیں ہزار پانچ سو دے کر ان کی سات نسلوں تک احسان جتانا مالکان پر فرض ہو جیسے ۔۔ایک بیوہ عورت کسی گھر کام کرتی ہے وہ بیمار ہے یا شوہر بیمار ہے وہ نہیں آتی ۔تو کہا جاتا ہے بیٹی کو بھیج دے ۔۔اپنی بچی کو کسی غیر گھر بھیجنا وہ بھی اس گھر جہاں دو عورتیں تو سات مرد ہو ۔۔بہت ہی ہمت کا کام ہوتا ہے ۔۔۔وجہ صرف دو وقت کی روٹی اور ماہانہ چند ہزار پیسے ۔اس کے علاوہ اتارے ہووے کپڑے یا بچا ہوا سالن بس ۔۔یہ بھی کوی دیتے ہیں مطلب یہ بھی گر کوی دے تو غنیمت ہے ۔ورنہ تو ان لوگوں کو ایسے دھتکارتے ہیں لوگ جیسے ان میں اور دوسروں میں مریخ اور زمین جیسا فرق ہو ۔۔ان کے ہاتھ سے بنا سپائسی کھانا کھا لینا ہے ۔۔لیکن اسی کھانے کو اگر وہ کھاے تو برابری یاد آجانی ہے ۔۔ان کے ہاتھوں کے بنے مشروب پی لینے ہے ۔لیکن وہی مشروب اگر وہ پئیں تو مشروب خراب کہلاتا ہے ۔۔ان کے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو نہلانا ان کے کپڑے پہنانا تو منظور ہے لیکن ان ہی لوگوں کے بچوں ساتھ اپنے رئیس بچے کو کھیلنے نہی دینا کہ وہ کام والی کا بچہ ہے ۔۔گھروں میں کام کرنے والی عورتوں بچیوں ساتھ کچھ لوگوں کا سلوک انتہائ بھیانک ہوتا ہے ۔۔بحثیت قوم تو ہمیں غریبی امیری کے فرق کا سبق گھروں سے والدین کے زریعے ملتا ہے ۔۔اگر بچہ خوش ہو کر کام والی کے بچے ساتھ کھیل لے گا تو ماں ڈانٹے گی سر پہ مت چڑھاو اسے ۔۔یہ لوگ سر چڑھانے کے قابل نہی ہوتے ۔۔اگر بچی خوشی میں کام والی کی بچی کو دوست یا سہیلی سمجھ کر اس کے ساتھ ایک برتن میں کھا لے گی تو گویا قیامت ہی آجاے گی پھر تو والدین خود ایسا لیکچر دیتے ہیں اولاد کو کہ کل وہی بچے ان والدین کا جوٹھا کھانا کھاتے بھی کراہت محسوس کرتے ہیں ۔۔5 سے 14 سال کے ہزاروں بچے ہیں جو ملک کے کسی نہ کسی کونے میں محنت مزدوری کررہے ہیں ۔ گھروں میں کام کرنے والے لڑکا یا لڑکی بھی جسمانی ذہنی تشدد کا سامنا کرتے ہیں ۔لاہور میں واقع عسکری نائن کے ایک گھر میں کام کرنے و الی 10 سالہ ارم کو چوری کے الزام میں ہاتھ پاؤں سے باندھ کر پلاسٹک کے پائپ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو بعدازاں ہسپتال میں پہنچ کر دم توڑ جاتی ہے۔ ارم کی بیوہ ماں کا دکھ کون سمجھے گا۔ بیٹی مزدوری کے لئے آئی تھی زندگی سے بھی گئی۔ نواب ٹاؤن میں ننکانہ کا 15 سالہ محمد قاسم عمر خان کے گھر میں تشدد سے جان دے دیتا ہے۔ غریب باپ کی دہائی کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ لاہور ہی کے ویلنشیاء ٹاؤن میں حکم عدولی پر مالکن سعدیہ کے ہاتھوں 14 سالہ عثمان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے اس کے جسم پر نظر آنے والے تشدد کے نشانات سے مالکن بے خبری کا اظہار کر دیتی ہے۔ غریب کا تو مقدمہ لڑنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ بڑی بڑی کوٹھیاں‘ محلات کتنی ننھی‘ معصوم جانیں نگل گئیں غربت نے پردہ نہ اٹھنے دیا۔ لاہور میں ایک پروفیسر سلمان کے گھر میں سیالکوٹ کی 16 سالہ لڑکی پر تشدد کیا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی ثابت ہو جاتی ہے۔ پولیس اور ڈاکٹروں کی تصدیق کے باوجود انصاف نہیں ملتا۔یہ تو میرے ملک میں ہوتے واقعات ہے ۔۔اور آپ کو لگتا ہے کہ یہ صرف پاکستان میں ہی ایسا ہے تو ہرگز نہیں
عرب ممالک میں یہ عام ہے ۔۔وہاں آج بھی رواج ہے لڑکیوں کو تین چار پانچ سال کے ایگرمنٹ پر خرید کر لایا جاتا ہے گھروں میں کام کروانے کے لیے ۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہاں تشدد کے واقعات کم ہوتے ہیں لیکن یہ شہنشاہی سوچ ہمارے سے کئ زیادہ ان لوگوں میں بھی ہے ۔ان کے بچوں کا ہر کام ہر کام وہ کام والیاں کرتی ہے چوبیس گھنٹے ان کی تہوار سب ان بچوں کے کام کرتے ہی گرز جاتے ہیں ۔۔کسی کی غربت کا یوں فائدہ اٹھاتے ہیں ہم ۔۔کہنے کو ہم سب مسلمان ہے
آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بلند ترین مقام عطا فرمایا تھا۔ اور آپؐ کو ایسے خدام بھی بخشے تھے جو آپ کی خدمت پر ہمیشہ کمربستہ تھے اور آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کو تیار تھے مگر اس کے باوجود آپ اپنے لئے عام دنیاوی معاملات میں کوئی امتیازی حیثیت اختیار کرنا پسند نہ فرماتے اور اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے۔ اور اس میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔
اپنے خادموں کا بوجھ ہلکا کرتے اور انہیں آرام پہنچانے کی اتنی کوشش فرماتے کہ وہ آپ پر جان فدا کرنے کے لئے مستعد رہتے تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے عمل کو وقار بخشا اور ہاتھ سے کام کرنے میں عزت کی نوید سنائی۔
اس نبی کی امت ہے ہم ۔۔ گھر کے کام کاج میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ بھی بٹاتے اور اپنی جوتی خود مرمت کرلیتے تھے اور اپنا کپڑا سی لیا کرتے تھے۔ پھر ہم میں کہاں سے آگئ یہ شہنشاہی والی سوچ ۔۔۔ملازموں سے کام کروانے والی ۔۔آپ جانتے ہو یورپ کی ترقی کا کہیں نہ کہیں یہ بھی راز ہے کہ وہ لوگ وقت کے پابند ہے وہ لوگ اپنا کام خود کرتے ہیں ان کو وزیراعظم بھی سڑک پر تھوک دے تو اپنا تھوک خود صاف کرتا ہے ۔۔ان کے آگے پیچھے لمبی گاڑیوں کے پروٹوکول نہیں ہوتے ۔۔۔وہاں ہر بندہ بندی خودمختار ہے اپنے کام کرنے میں وہاں کوی کسی کا ملازم نہیں ہوتا ۔۔یہاں تو جس کے پاس چار پیسے آجاتے وہی مالک ہے اس سے نیچے والا ملازم ۔۔۔افسوس ہوتا ہے کبھی کبھی کہ ہم نے اپنے کلچر کے ساتھ ساتھ اپنی مسلمانی والی پہچان بھی ختم کر لی

Leave a reply