کشمیر میں ینگ مینز ایسوسیی ایشن کا قیام اور اس کی جدوجہد تحریر : اسامہ ذوالفقار

0
121

۱۸۹۲؀ میں کشمیر میں ینگ مینز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہ ایک ایسا دور تھا جس میں کشمیر کے اندر کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔ صرف اورصرف مدرسوں کے اندر فارسی اور عربی کی تعلیم دی جاتی تھی جو کہ کشمیر کے اندر کسی بھی سرکاری نوکری کے لیے فٹ نہیں تھی۔ سکھوں کا مہاراجہ اس وقت کا بہت ہی سخت اور ظالم حکمران تھا جو کہ مسلمانوں کو کسی بھی صورت ترقی نہیں کرنے دیتا تھا اور اس ایسوسی ایشن کا قیام بھی اس سے چھپ کے لایا گیا تھا۔ اس کے بعد بہت سے مسلمان نوجوان اس کا حصہ بنے اور اس انجمن کا بھرپور قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد اس کا نام "ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن” رکھ دیا گیا۔
چند نوجوانوں نے اس انجمن کا قیام جموں میں بھی لایا ۵-۶ نوجوانوں نے مل اس کی چوری چھپے مہم چلائی مہاراجہ کو جیسے ہی پتا چلا اس نے فورن اس پر پابندی لگا دی ابھی اس کی بنیاد ہی ڈلی تھی کہ اس پر پابندی لگ گئی۔ اس کے بعد ۱۹۰۹ تک کوئی خاص کام تو ہوا نہیں اور اس کا صرف نام ہی رہ گیا۔
اب بات کرتے ہیں ینگ مینز ایسوسیی ایشن کے مقاصد پر ان کا سب سے پہلا اور اہمیت کے حامل جو مقصد تھا وہ یہ کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی تعلیم دینا اور انہیں اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنا۔ ان کا مقصد مسلمانوں کو حصول تعلیم کے لیے متوجہ کرنا اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لیے ریاست میں دفاعی کام کرنا۔
۱۹۲۲ تک تو اس کی نہ ہونے والی صورت حال چلتی رہی۔ اور اسی عرصے میں چند اور لوگ بھی جمع ہوۓ اور انھوں نے مشورہ کیا اور سوچا کہ اس پر اب تک پہلے جو لوگ تھے انہوں نے کچھ خاص کام نہیں کیا اب اس پر مزید کام کرنا ہے۔
ادیب قیس (شاعر تھے) ان کے گھر اجلاس ہوا چودھری غلام عباس اپنی کتاب "کشمکش” میں لکھتے ہیں "آٹھ نوجوانوں نے قران مجید پر حلف لیا اور کہا ہم ثابت قدم رہیں گئے”۔ اور پھر ان لوگوں نے خفیہ طور پر کام شروع کیا۔ انھوں نے اپنے مضامین اخبارات میں پیش کیے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس تنظیم میں شامل ہونے لگے اور کام تیزی سے ہونے لگا۔
۱۹۲۲ کے بعد منشی غلام علی جو کہ "اٹھمکام” کے رہنے والے تھے جو اس تنظیم میں شامل ہوۓ اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔انھوں نے کشمیر کے اندر بہت سی خدمات انجام دی۔ اگر کوئی مسائل آ جاتے یہ نوجوان وہاں پہنچ کر ان مسائل کو حل کرتے تھے۔
اس تنظیم نے ریاست میں فرقہ واریت کو ختم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان کی محنت سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہوے۔ اس تنظیم نے مسافروں کے لیے جموں میں پناہ گاہ بھی تعمیر کروائی۔ اور ان نوجوانوں نے بہت سی لاوارس لاشوں کی تدفین بھی کی۔
وقت کے ساتھ اس ایسوسیشن میں نئی روح سی آنے لگی۔ ڈیڈھ سال کے بعد ۱۹۲۴ میں پہلا جلسہ کیا گیا جس سے نوجوان نسل میں جوش و جذبہ پیدا ہونے لگا۔ اس جلسے میں مولانا عبدالحق نے خطاب کیا اور ہندوستان سے بھی عالم آے۔ اور اسی دوران چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب "کشمکش” لکھی اور جلسے میں اس کے بارے میں زکر کیا۔
جلسہ ختم ہوا مسلمانوں کے دل میں نیا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ ان کی رگوں میں خون ڈورنے لگا۔ جموں کے اندر مسلمانون کے اندر پہلی بار اپنے حقوق کے لیے بیداری پیدا ہوئی۔
سردار فتح محمد فتح خان کریلوی نے اس تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اب مسلمانوں کے اندر ایک شعور پیدا ہونے لگا جو اس ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد تھا۔ وقت کے ساتھ یہ نوجوان کشمیر کی تحریک کا اہم حصہ بن گئے بہت سے نئے لوگ بھی آنے لگے اور اپنی اس آزادی کی جدوجہد کو مزید جاری رکھا۔ جو کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اب تک جا ری ہے اور جاری رہے گی۔

Twitter id : @RaisaniUZ_

Leave a reply