مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ

0
30

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ

مقبوضہ جموں وکشمیر کے ضلع بارہمولہ میں ایک بھارتی فوجی نے خودکشی کرلی ہے۔پولیس کے ایک اہلکار نے میڈیا کو بتایا ہے کہ رکشیت کمار نامی فوجی اہلکار نے ضلع کے علاقے اوڑی میں واقع کیمپ میں اپنی سروس رائفل سے خودکشی کی۔جموں کے علاقے گاجنسو میں گزشتہ روز بھارتی بارڈرسیکورٹی فورس کے اہلکار چکر پانی پرساد تیواری نے خودکشی کر لی تھی۔

گزشتہ برس دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد عائد پابندیوں کی وجہ سے جہاں جموں و کشمیر کے لوگ ذہنی دباو میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں وہیں وادی میں تعینات فوجی اور پولیس اہلکار بھی موجودہ صورتحال کی وجہ سے خودکشی اور ساتھی اہلکاروں کی طرف سے ہلاک کرنے کے واقعات کا شکار ہو رہے ہیں۔ 

مقبوضہ جموں وکشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق "گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی میں تعینات نیم فوجی دستوں کے 23 اہلکاروں نے خودکشی کی ہے جبکہ چھ اہلکار وں کے انہیں کے ساتھیوں نے ہلاک کیا۔بھارتی فوج میں بھی خودکشی کا ایک کیس سامنے آیا ہے۔ ابھی تک کل ملا کر 32 اہلکار خودکشی یا پھر یا اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔”

 جنوری اور اگست 2020 کے درمیان ، سیکیورٹی فورسز کے 18 اہلکارخودکشی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے، جس کی وجہ سے اب تک 24 اموات ہوئیں۔ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی )جے کے سی سی ایس(کے سالانہ انسانی حقوق کے جائزے کے مطابق ، 2019 میں ، مسلح افواج کے 19 ممبروںنے مبینہ طور پر خودکشی کی۔ جب کہ ضلع ادھم پور میں ایک تین اہکار ہلاک ہوگئے ۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہندوستانی مسلح افواج (فوج ، بحریہ ، ایئرفورس)کے ایک ہزار ایک سو سے زیادہ ارکان خودکشی سے ہلاک ہوگئے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر اور شمال مشرق جیسے تنازعہ والے علاقوں میں "طویل عرصے سے تعیناتی” مسلح افواج کے ممبروں کی ذہنی صحت کوخطرہ ہے۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق سرینگر میں تعینات سی آر پی ایف کے ترجمان پنکج سنگھ کے مطابق "ہر معاملے کی ایک الگ وجہ ہوتی ہے۔ ان معاملوں میں پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔ چھٹی نہ ملنا اس کی وجہ نہیں ہے۔ جہاں تک میری نجی رائے ہے کہ وادی کے ماحول میں کام کرنا آسان نہیں۔ نیم فوجی دستے عسکریت پسند مخالف سرگرمیوں کے علاوہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ ذمہ داری بہت ہے اور ڈیوٹی کا وقفہ بھی کافی لمبا۔”ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ان کا مزید کہنا تھا کہ "ایک اہلکار صبح سات بجے تعینات ہوتا ہے اور شام سات بجے تک وہیں کھڑا رہتا ہے۔ وہ بھی انسان ہے۔ ذہنی دباو ہونا تو لازمی ہے۔

سی آر پی ایف کے انتظامیہ اپنے اہلکاروں کے لیے کئی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔”ساوتھ ایشین وائر کے مطابق افسران اپنے اہلکاروں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کی وجہ وقت پر چھٹی نہ ملنے کے بجائے وادی کی صورتحال کو ٹھہرا رہے ہیں۔ بھارتی فوج کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جوانوں کی ذہنی تندرستی کے لیے کافی عرصے سے مہم چلا رہے ہیں۔ایک سینئر آرمی آفیسر نے ساوتھ ایشین وائر کو بتایا کہ "نیم فوجی دستوں میں خودکشی کے معاملے زیادہ ہیں۔ فوج میں ایک یا دو ہی رواں برس سامنے آئے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کا نظام اور کام کرنے کا طریقہ کافی مختلف ہے۔

"ان کا مزید کہنا تھا کہ "ایک فوجی ہر حالت میں کام کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے یہ پتہ ہوتا ہے کی پیشہ ورانہ دبا اور گھریلو دباو سے کیسے نمٹا جائے۔ نیم فوجی دستوں کے بارے میں زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ بھی کافی اقدامات اب اٹھا رہے ہیں اور ماہرین کی مدد بھی لے رہے ہیں۔

"سرینگر شہر میں تعینات کچھ سی آر پی ایف اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ” گھر سے دور رہتے ہیں۔ یہاں کے حالات ٹھیک نہیں۔ اور جب گھر پر کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو فکر مند ہوجاتے ہیں۔ جس وجہ سے اکثر اپنے سینئر یا ساتھیوں سے بحث ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ واقعات پیش آتے ہیں۔”ان کا کہنا تھا کہ "دفعہ 370 اور 35 اے منسوخی کے بعد جہاں وادی کی زمینی صورتحال کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ ہمارے گھر والے کس حال میں تھے یہ پریشانی ہر وقت ذہن میں تھی۔ فون بھی نہیں چل رہے تھے۔ اور ان دنوں تو چھٹیاں بھی نہیں مل رہی تھی۔ اب ایسے میں ذہنی دباو تو پڑے گا ہی اور پھر کسی نہ کسی پہ تو نکلے گا۔ یا تو پھر خود پر ہی نکلے گا۔ "ان کا کہنا تھا کہ "فوج کے جوانوں کو کافی بہتر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اور ان کا کام بھی ہم سے کافی آسان ہے۔ ہم سے تو بس کام لیا جاتا ہے ہمارے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔ اور جب بھی کوئی ہمارے بارے میں بات کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔

2018 میں بارڈر سکیورٹی فورس کے جوان تیج بہادر یادو، جو جموں وکشمیر کے سرحدی علاقے میں تعینات تھا، نے فیس بک پر دعوی کیا تھا کہ انہیں ملنے والا کھانا غیر معیاری ہے۔ جس کے بعد اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ یادوں جیسے کئی اور سپاہی ہیں جنہوں نے جب بھی سوال کئے ہیں انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر جنید نبی کا ماننا ہے کہ "نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کے ساتھ ہمیشہ سختی کی جاتی ہے۔ یہاں تعینات اہلکار اکثر دیگر ریاستوں کہ ہوتے ہیں۔ اپنے دوستوں سے رشتے داروں سے دور ہوتے ہیں۔ گھر کے مسائل سیدھے ان کے ذہن پر دبا ڈالتے ہیں۔ نیم فوجی دستوں کو چاہیے کہ وہ سینئر اور جونیئر رشتے میں بہتری لائے۔ کمیونیکیشن گیپ دور کریں۔

"ان کا مزید کہنا تھا کہ "دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد یہاں کا مواصلاتی نظام بند تھا۔ ہم تو یہاں کے رہنے والے ہیں ہمارے گھر والے فکر مند ہو جاتے تھے۔ لیکن جو دیگر ریاستوں سے یہاں آئے ہیں ان کے گھر والے کتنے پریشان ہوں گے اور وہ کتنے پریشان ہوتے ہوں گے۔ اس سے دبا وبڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔”دباو کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں میں ڈاکٹر جنید کا کہنا تھا کہ "آپس میں میل جول رکھنے سے، ہنسی مذاق کیجیے، موسیقی اور دیگر چیزوں میں ملوث رہیں۔ کبھی بھی خالی نہ بیٹھے۔ کسی الجھن میں ہوں تو دوسروں سے بانٹیں۔ گھریلو مسائل کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اور جب بھی ضرورت ہو ماہرین سے رابطہ کریں۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ "ایک شخص خودکشی کیسے کرتا ہے؟ اس کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ پہلا اچانک سے۔ اس معاملے میں متاثر کو بچانا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جو دوسرا ہے وہ زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ وہ شخص پورا ارادہ اور تمام تیاری کر کے خودکشی کرتا ہے۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کی ماہرین کی مدد ہروقت لینی چاہیے اور کچھ بھی دل میں دبا کے نہیں رکھنا چاہیے

Leave a reply