آج عید تھی ، دمشق کے سب سے غریب آدمی کے گھر عید ، جسے خلیفہ عمر ثانی کہتے تھے ، ابوبکر قدوسی

0
61

آج عید تھی ، دمشق کے سب سے غریب آدمی کے گھر عید ، جسے خلیفہ عمر ثانی کہتے تھے ،
ابوبکر قدوسی

فاطمہ بنت عبد الملک ، کے دادا خلیفہ ہووے پھر ابّا عبد الملک تو کمال کے ہی خلیفہ تھے ۔پھر فاطمہ کے بھائی ایک کے بعد ایک چار خلفاء ہو گئے ۔
شادی مدینے کے گورنر سے ہوئی ۔۔گورنر ایسا بانکا سجیلا کہ ہر عورت ایسے خاوند کی خواہش کرے ۔۔۔جس راہ سے گزرتا جیسے راہ روشن ہو جاتی فضاء معطر ہو جاتی ۔۔۔۔
فاطمہ کی خوش قسمتی کہ اب کی بار خود اپنا خاوند خلیفہ ہو گیا ۔۔۔۔۔
آج عید تھی ۔۔۔خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔لاکھوں لاکھ مربع میل کا حاکم ۔۔۔
لیکن خلیفہ کیا ہووے ۔۔سب عیش و عشرت رخصت ہوئے ۔۔۔فاطمہ بھی کچھ ایسی وفاء شعار کہ جب گھر میں پوری کی پوری مملکت داخل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ غربت بھی تو اف تک نہ کی ۔۔۔خاوند نے ادھر عہدہ سنبھالا ادھر تن پر جیسے ٹاٹ پہنا ۔۔۔۔ریاست کے غم اور عوام کے پیسے کا اتنا فکر ، دیانت امانت کی ایسی چنتا کہ سب عیش رخصت ہوئے ۔۔۔
آج عید تھی ۔۔۔خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔۔
چند روز پہلے فاطمہ نے خاوند سے کہا کہ عید پر اب کے بچوں کو کپڑے لے دیجئے ۔۔۔۔۔عمر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ پیسے کہاں سے لاؤں ۔۔۔۔
فاطمہ نے منہ ادھر کیا اور کمرے سے نکل گئی کہ آنکھیں برسات ہو رہی تھیں اور من نہ چاہا کہ بہترین انسان بیوی کی آنکھوں میں اترتی رم جھم بارش کو دیکھ لے اور بے چین ہو جائے ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں واپس آئ اور امید کی جوت جگائی کہ
آج عید تھی ۔۔۔۔خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔۔لاکھوں مربع میل کا حاکم ۔۔۔
” سرتاج ، میرے حضور ! آپ یوں کیجئے کہ بیت المال کے نگران سے کہیے کہ اس بار تنخواہ پیشگی دے دے کہ بچوں کے کپڑے بن جائیں ۔۔مہینہ بھر سوت کات لوں گی ، جو ملے گا قرض اتر جائے گا ”
عمر کا بجھا چہرہ کچھ روشن ہوا ۔۔آخر باپ بھی تو تھے بھلے جیسے بھی محتسب ہوں ۔۔۔۔دل تو دل ہوتا ہے ۔۔۔ابھی میں نے یہ لکھنے سے پہلے اپنی چھوٹی بیٹی کو ڈانٹ دیا اس کی آنکھیں بہہ نکلیں ۔۔۔۔میں دیر تک بے چین رہا جب تک وہ میری منتوں ترلوں کے بعد مسکرا نہ دی سکون نہ ملا ۔۔۔۔لیکن یہاں تو ۔۔۔۔۔
آج عید تھی ۔۔۔خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔عید غریباں ۔۔۔
عمر بیت المال گئے ۔۔۔۔بیت المال کے نگران کے سامنے دست سوال دراز کیا ۔۔۔وہ بھی عمر کا اپنا ہی تو مقرر کردہ تھا ۔۔۔۔۔سوال سن کے بے تاثر ، رسان سے لہجے میں بولا :
” اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ اگلی تنخواہ کے وقت تک زندہ رہیں گے ۔۔۔۔امت کا پیسہ ہے ، میں کیونکر اس میں اختیارسے تجاوز کروں ”
عمر خاموشی سے واپس ہو لیے ۔۔۔۔۔۔عید آ گئی ۔۔۔
آج عید ہے ۔۔دمشق کے سب سے غریب آدمی کے گھر عید ، غریب آدمی کہ جسے خلیفہ بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔
عمر بن عبدالعزیز گھر واپس لوٹ کر آتے ہیں۔
"فاطمہ! بچوں کو کہہ دو میں انھیں عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سکتا۔۔۔”
عید کی نماز ہوئی ، سب ملنے والے ملنے آئے ۔۔۔ عمر عبدالعزیز کے بچے بھی انہی پرانے کپڑوں میں بیٹھے تھے۔۔۔عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بچوں سے فرمایا
"بچو ! آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہو گا کہ عید کے کپڑے بھی نہ دلوا سکا۔۔۔۔”
عمر کے ایک بیٹے کا نام عبدالملک تھا جو ان کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا اسی نے بڑھ کے جواب دیا :
"نہیں ابا! آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے۔۔۔ہمارے باپ نے خیانت نہیں کی۔۔۔۔”
گھر میں تشریف لائے تو بچیاں منہ پر کپڑا رکھ کر بات کر رہی تھیں۔۔۔۔۔کچھ حیران سے ہووے پوچھا :
” کیا ماجرا ہے ، منہ پر کپڑا رکھ کر کیوں بات کر رہی ہو ”
بیٹیوں نے جواب دیا :
” آج ہم نے کچے پیاز سے روٹی کھائی ہے ہم نہیں چاہتیں ہمارے منہ سے آنے والی پیاز کی بدبو سے آپ کو پریشانی ہو۔۔۔ ”
عمر بن عبدالعزیز کی آنکھوں میں آنسو تھے :
"میری بچیو! کوئی باپ اپنی اولاد کو دکھ نہیں دینا چاہتا۔۔۔میں چاہوں تو تمہیں شہنشاہی زندگی دے دوں لیکن میں تمہاری خاطر جہنم کی آگ نہیں خرید سکتا۔۔۔”
ان کا جب انتقال ہوا انھیں قبر میں اتارا گیا۔۔رجاء قبر میں اترے ، کفن کی گرہ کھول کر دیکھی ۔ رجاء کہتے ہیں :
"میں نے دیکھا۔۔۔۔ عمر بن عبدالعزیز کا چہرہ قبلہ رخ تھا اور چودہویں کے چاند کی طرح روشن تھا یوں کہ جیسے چودہویں کا چاند قبر میں اتر آیا ہو ”
رحمہ الله ۔۔۔۔رحمہ الله ۔۔۔۔رحمہ الله

Leave a reply