لفظوں کی پکار
غزہ کی زمین سرخ ہو چکی ہے۔ ملبے کے نیچے دبی ہوئی ننھی لاشیں، ماؤں کی سسکیاں، اور ویران مسجدیں… یہ سب ایک سوال بن کر اُمت مسلمہ کے ضمیر پر دستک دے رہی ہیں، مگر افسوس! یہ ضمیر شاید سو چکا ہے — یا بدتر، مر چکا ہے۔
اسرائیلی بمباری صرف عمارتوں کو نہیں گرا رہی، بلکہ انسانیت کے دعووں کو بھی خاک میں ملا رہی ہے۔ عالمی ادارے، حقوقِ انسانی کی تنظیمیں، اور نام نہاد مہذب دنیا سب تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک کردار خود اسلامی دنیا کا ہے، جو محض بیانات، قرار دادوں اور تصویری مذمتوں تک محدود ہو چکی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
"المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يخذله”
یعنی: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔
(صحیح بخاری)
مگر ہم نے اپنے بھائیوں کو چھوڑ دیا۔ ہم نے اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے خاموشی اوڑھ لی۔ ہماری زبانیں مصلحت کے تالے میں بند ہیں، اور دل مفاد کی زنجیروں میں قید ہیں۔
آج اسلامی ممالک کی طاقت صرف عسکری نمائشوں تک محدود ہے۔ اتحاد صرف کانفرنس ہالز کی میزوں پر موجود ہے۔ اور بیت المقدس کی اذیت…؟ وہ چیخ چیخ کر ہمیں پکارتی ہے، مگر ہم تجارتی معاہدوں اور سفارتی توازن کے نشے میں بے حس ہو چکے ہیں۔
یہ کیفیت نئی نہیں۔ جب تک صلاح الدین ایوبی کی آنکھوں میں بیت المقدس کی غلامی کا دکھ تھا، وہ سکون سے سو نہیں سکتا تھا۔ مگر ہم…؟ ہم ہنستے ہیں، خریداری کرتے ہیں، تفریح کرتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں… ہم زندہ ہیں۔
نہیں!
ہم زندہ لاشیں ہیں، جو نہ بولتی ہیں، نہ تڑپتی ہیں، اور نہ ہی اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اس نیند سے جاگیں۔ عملی اقدامات کی طرف بڑھیں۔ فلسطینی مصنوعات کو ترجیح دیں۔ ظالموں کی معیشت کو کمزور کریں۔ دعائیں کریں، شعور پھیلائیں، اور اپنی نسلوں کو سچ سکھائیں۔
ورنہ وہ دن دور نہیں جب تاریخ ہمیں اسی عنوان سے پکارے گی:
"خاموش اُمت… زندہ لاشیں!”
jabbaraqsa2@gmail.com