سیف اللہ نیازی کے گھر ریڈ کے دوران خاتون اہلکار موجود تھی،ڈی جی ایف آئی اے

0
63

سیف اللہ نیازی کے گھر ریڈ کے دوران خاتون اہلکار موجود تھی،ڈی جی ایف آئی اے

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر سیف اللّہ سرور خان نیازی کے اسلام آباد میں واقع گھر پر ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کے چھاپے کا معاملہ زیربحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے معاملے پھر تفصیلی بحث کے بعد کمیٹی ممبران کی مشاورت سے سینیٹر کامل علی آغا کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔ سینیٹر فیصل سلیم رحمان اور سینیٹر رانا مقبول احمد ذیلی کمیٹی کے ممبران ہوں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے معاملے کے حوالے سے چار ٹی او آرز بنا دیئے گئے۔ ٹی او آرز میں کہا گیا ہے کہ جس ویب سائٹ کو بنیاد بنا کرریڈ کیا گیا، کیا وہ خفیہ ویب سائٹ تھی؟۔ کیا سینیٹر سیف اللّہ خان نیازی کے گھر پرریڈ کرتے وقت خاتوں اہلکار موجود تھیں؟۔ کیا سینیٹر سیف اللّہ خان نیازی کے گھر پر چھاپے سے متعلق چیئرمین سینیٹ سے اجازت لی گئی تھی؟۔ کیا ریڈ کرتے وقت سرچ وارنٹ پولیس اور ایف آئی اے حکام کے پاس تھا یا نہیں اور کیا ریڈ کے دوران خواتین اہلکار موجود تھیں؟

کمیٹی اجلاس کے آغاز میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز اور پاکستان تحریک سے تعلق رکھنے والے ممبران کمیٹی نے سرچ آپریشن افیسر ایس پی عمران حیدر کی عدم موجودگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ اچھا نہیں لگتا کہ ادارے کے سربراہ کو بھی بٹھائے اور آپ انسپکٹرزکو بھی بلائیں،اگر براہ راست سرچ آپریشن آفیسر کو بلانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی لیکن ڈی جی ایف آئی اے کمیٹی اجلاس میں موجود ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس معاملے پر سوموٹو لیا تھا، اس دن کمیٹی اجلاس میں کوئی نہیں آیا، پھر سیکرٹری وزارت داخلہ کو خط لکھا۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی مختلف واقعات پر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر عوامی مفاد میں سوموٹو ایکشن لئے ہیں۔ سرچ اپریشن آفیسر عمران حیدر کو سمن جاری کیا تھا، لیکن وہ کمیٹی اجلاس میں پیش نہیں ہوئے، یہ پارلیمان کی توقیری کا سوال ہے۔ہم سب نے مل کر پارلیمان کا رتبہ بنانا ہے۔

سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ معاملے کے حوالے سے کمیٹی ممبران کو اعتماد میں لینا چاہئے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹرسیف اللّہ خان نیازی ایک باوقار شہری اور سیاست دان ہیں اور ایک با عزت گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد ایک مذہبی اسکالر ہیں ان کی تصانیف پاکستان میں پڑھی جاتی ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس ریڈ کے دوران ہماری معلومات کے مطابق کوئی خاتون پولیس اہلکار شامل نہیں تھی۔سینیٹر سیف اللّہ نیازی کے گھر والوں کو ہراساں کیا گیا، چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا۔پارلیمان ہمیں عزت دیتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ریڈ غلط ہوا ہے۔

سینیٹر اعظم خان سواتی و دیگر ممبران کمیٹی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ سے پوچھے بغیر کسی سینیٹر کے خلاف رولز کے مطابق ریڈ نہیں کرسکتے۔ہمیں ایک ہی بندہ چاہئے جس نے سرچ وارنٹ جاری کیا اور پھر سرچ آپریشن کیا۔عمران حیدر کو کمیٹی اجلاس میں لازمی آنا چاہئے ان سے ہمارے سوالات ہیں۔سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ اگر انہوں نے غیرقانونی کام کیا تو متعلقہ حکام کو لکھیں گے کہ اس کے خلاف کاروائی کریں، باقی آفیسر کا وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے۔سوال ہمارا عمران حیدر سے بنتا ہے۔جس پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ صرف عمران حیدر سے پوچھنا ہے تو ہمیں کس لئے کمیٹی میں بلا لیا۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ آج صرف آپ عمران حیدر کو بلا لیتے ہمیں پھر کبھی بلا لیتے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ پارلیمان کی بے توقیری ہے ہم نے عمران حیدر کوسمن جاری کیا تھا۔جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ صرف عمران حیدر نہیں پھر سب ریڈنگ پارٹی جن کی تعداد 100 سے زیادہ ہے سب کو بلائیں۔اگر عمران حیدر نے کوئی کام غلط کیا ہے تو ڈی جی ایف آئی اے ذمہ دار ہیں۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ کیا یہ ضد والی بات ہے کہ سمن جاری کرنے کے بعد بھی وہ نہیں آئے۔جس کو سمن جاری کیا گیا ہے اگر وہ نہ آئے تو اس کو استحقاق کمیٹی میں جانا چاہئے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر وفاقی وزیر داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے ہمیں مطمعین نہیں کرتے تو پھر متعلقہ شخص کو بھی بلا لیں گے۔سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ رول (4)187 کے مطابق ان کو سمن کیا اور صرف سوال پوچھنے تھے لیکن وہ نہیں آئے، ہم ڈی جی ایف آئی اے سے سوال نہیں کرسکتے۔

قائد حزب اختلاف سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ سینیٹر سیف اللّہ خان نیازی کے خلاف جن حالات میں ریڈ ہواہے اس میں تقدس کا خیال نہیں رکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے ریڈ کیا گیا، کیا یہ طریقہ کار ٹھیک ہے؟ کیونکہ مجسٹریٹ اور لیڈیز پولیس کو بھی ہونا چاہئے اور چیئرمین سینیٹ کو بھی ریڈ کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے۔سینیٹر فیصل سلیم رحمان نے کہا کہ اگر اس طرح حراسگی نہ ہوتی اور اس کے بجائے سینیٹرسیف اللّہ نیازی کو نوٹس بھیجتے کہ یہ ہمارے سوالات ہیں اس کے جوابات دے دیں تو اس میں کیا برائی تھی کہ اتنے لوگ ریڈ کرنے چلے گئے، پڑوس والے کیا سوچ رہے ہوں گے۔جس طرح کا ریڈ ہوا کوئی پارلیمنٹرین اس کی حمایت نہیں کرے گا۔

ڈی جی ایف آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ہائی پروفائل انکوائریز ایف آئی اے میں چل رہی ہیں جس میں سیاست دان بھی ہیں۔ ان انکوائریز میں کسی کی بھی تذلیل نہیں کی گئی نہ ہی بری مثال قائم کی گئی ہے بس انہیں سوالات دے کر معاونت کا کہا گیا، اگر مجھ پرکسی کا پریشر آئیگا کسی طرف سے تو میں ایسا بالکل نہیں کروں گا۔ مجھ سے اجازت لی گئی کہ سرچ آپریشن کے دوران آلات سیز کرنی ہیں۔ یہ ریڈ نہیں تھا یہ سرچ آپریشن تھا- سرچ وارنٹ کے ساتھ سرچ آپریشن کیا گیا، سینیٹر سیف اللہ نیازی نے معاونت کی۔ سامان خود انہوں نے ہمارے حوالے کیا، کوئی بد تمیزی نہیں ہوئی،ہر چیز لیگل ہے سرچ آپریشن کیلئے عملہ سرچ وارنٹ کے ساتھ گیا تھا۔ کسی کی تضحیک کا مسئلہ تھا ہی نہیں۔ ریڈ کے دوران خاتون اہلکار موجود تھی۔

سینیٹر فوزیہ ارشد نے سوال کیا کہ کیا ریڈ کے دوران کوئی خاتون اہلکار موجود تھی؟کیا چیئرمین سینیٹ سے اس حوالے سے پوچھا گیا تھا؟ سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا ہے کہ ریڈ کے دوران خاتون اہلکار تھی لیکن کوئی بھی خاتون اہلکار ریڈ کے دوران موجود نہ تھی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس حوالے سے ان کے علم میں دو باتیں  کہ سرچ وارنٹ تحریری نہیں تھا اور سینیٹر سیف اللّہ خان نیازی کے گھر عملہ گیا اور مزاحمت نہیں کی، اور کوئی خاتون آفیسر موجود نہیں تھی۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ آپ لوگوں کی گفتگو سے لگتا ہے کہ اس معاملے میں تین چیزیں سامنے آئی ہیں، کہ سرچ وارنٹ نہیں تھا بعد میں حاصل کیا گیا، لیڈیز اہلکارساتھ نہیں تھیں اور بد تمیزی ہوئی ہے۔جس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس معاملے کو سیاسی ڈرامہ نہیں بنائیں گے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز اعظم نزیر تارڑ،کامل علی آغا، فوزیہ ارشد،رانا مقبول احمد، مولا بخش چانڈیو، فیصل سلیم رحمان، شہادت اعوان، سرفراز بگٹی اور دلاور خان کے علاوہ سینیٹر زڈاکٹر شہزاد وسیم، سیف اللّہ خان نیازی،اعظم خان سواتی، شبلی فراز نے شرکت کی- وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، سیکرٹری وزارت داخلہ، آئی جی پی اسلام آباد،چیف کمشنر اسلام آباد،، ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ بھی آج کے اجلاس میں شریک ہوئے-

لڑکیوں سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات کی پنجاب اسمبلی میں بھی گونج

شادی کا جھانسہ ، ویڈیو بناکر زیادتی اور پھر بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتار

لودھراں میں خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ،پولیس کا کاروائی سے گریز

دوران ڈکیتی ماں باپ کے سامنے حافظ قرآن بیٹی کے ساتھ درندوں کی زیادتی

سکول سے گھر آنیوالی خاتون کے سامنے نوجوان نے کپڑے اتار دیئے، ویڈیو وائرل،مقدمہ درج

تقریب کے بہانے بلا کر خاتون کے ساتھ ہوٹل میں اجتماعی زیادتی

Leave a reply