خواجہ سرا بھی انسان ہیں تحریر: حافظ اسامہ ابوبکر
ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ سے بارہا یہ دعویٰ کیا گیا کہ با حثیت قوم ہم خواجہ سراؤں کے حقوق کا ہر ممکن تحفظ کریں گے لیکن عمل درآمد ناپید
پاکستان میں خواجہ سراؤں کو سماجی رویے سمیت تعلیم اور صحت کے میدان میں مختلف مشکلات کا سامنا ہے
ایسا کیوں کیا وہ انسان نہیں ؟
یا ان کی پیدائش پر انکا اختیار تھا ؟
خواجہ سرا دنیا بھر میں اپنی قابلیت سے اپنی پہچان بناتے ہیں تعلیم کے شعبے میں سائنس و ٹیکنالوجی ڈرامے فلم ماڈلنگ انجینئرز ہر شعبے میں نظر آتے ہیں لیکن ہمارے ہاں منظر یکساں تبدیل ہے
سڑکوں پر چہروں پر میک اپ لگائے ٹریفک سگنلز پر کمر پر ہاتھ رکھے بے ہنگم آوازوں میں گانے گاتے کھڑی گاڑیوں کے ادھ کھلے شیشیوں پر جھک کر عجیب و غریب حرکات کرتے نظر آتے ہیں اور یہ سب صرف پیسہ کمانے کے لئے اپنی ذات کی تذلیل سہتے ہیں
اس لیے کہ ان کے والدین ان کو اپنانے سے قاصر ہوتے ہیں اس معاشرے کی باتوں اور تانوں سے کہ یہ ایک خواجہ سرا کے والدین ہیں کتنی شرم کی بات ہے حالانکہ اس میں انکا کوئی اختیار نہیں یہ اختیار صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے
اگر انہی خواجہ سراؤں کو اچھی تعلیم و تربیت مہیا کی جائے تو یہ ہمارے معاشرے کے لئے انتہائی کارآمد افراد ثابت ہوں
پاکستان میں سب سے پہلے صوبہ خیبر پختونخوا نے پشاور میں خواجہ سراﺅں کے لئے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا جسکے ذریعے ہر ایک خواجہ سرا سالانہ پانچ لاکھ چالیس ہزار تک صحت سے متعلقہ سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں
خیبر پختونخوا کی حکومت کی طرف سے لیا جانے والا یہ اقدام پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی جس سے خواجہ سرا سرکاری اور حکومت کی طرف سے منتخب پرائیویٹ ہسپتالوں سے صحت کی مفت سہولیات بلا کسی تفریق مستفید ہو سکتے ہیں اسی سلسلے کے پیش نظر جامعہ کراچی نے بار پہلی بار پورٹل پر اپ لوڈ کیے جانے والے ایم فل/پی ایچ ڈی کے داخلہ فارم میں میل اور فیمیل کے ساتھ ساتھ “ٹرانس جینڈر” transgender (خوا جہ سرا) کا کالم بھی خصوصی طور پر شامل کردیا ہے ٹرانس جینڈر کا علیحدہ کالم شامل کرنے کی سفارش پورٹل بنانے والی ٹیم نے کی تھی
جس سے ان خواجہ سراؤں کے لئے PHD کی ڈگری حاصل کرنے میں بلا کسی امتیازی سلوک کے داخلہ آسان ہو گا اسی طرح کی ایک خوب صورت مثال کُچھ روز پہلے ملتان سے سامنے آئی باہمت خواجہ سرا نے ناچ گانے اور بھیک مانگنے کےبجائے باعزت روزگار کو ذریعہ معاش بنا کر الگ اور روشن مثال قائم کی ہے
سائيکالوجی ميں ماسٹر خواجہ سرا شانی نے نوکری نہ ملنے پر کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کیا ناں خود کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑا، شانی نے ملتان میں چھوٹا سا ہوٹل بنا کر خودداری کی شاندار روایت کی بنیاد رکھ کر اس سوچ کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ خواجہ سرا کُچھ نہیں کر سکتے شانی کےہوٹل کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے تمام افراد خواجہ سرا ہیں جو پہلے بھیک مانگ کر یا ناچ گانے سے اپنی گزر بسر کرتے تھے اسی طرح 2020 میں پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور بہترین کاوش ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی خواجہ سرا کو محکمہ پولیس راولپنڈی میں تعینات کیا گیا
ریم شریف نامی خواجہ سرا کو تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد محکمہ پولیس میں شامل کیاگیا تھا ۔خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم رہنے والی اور پولیس میں بھرتی ہونے والی ریم شریف کا اسکیل 14 ہے اور اسکی تنخواہ اس کے اسکیل کے مطابق ہے
بی آئی ایس پی بورڈ کے 50ویں اجلاس کا اسلام آباد میں انعقاد
اجلاس میں کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ جن میں سے اہم فیصلہ بورڈ کی طرف سے تمام خواجہ سراوں کو احساس کفالت پروگرام میں شامل کرنے کی منظوری دینے کا ہے آہستہ آہستہ ہی صحیح ہم خواجہ سراوں کو انسان سمجھنے لگ گئے ہیں خدارا انسان کو انسان سمجھ کر عزت دیں ہم اس بات پر زرا برابر اختیار بھی نہیں رکھتے کوئی کالا ہے تو گورا کیوں نہیں کوئی چھوٹا قد رکھتا لمبا کیوں نہیں کوئی پتلا کیوں ہے موٹا کیوں ہے یہ مرد نہیں عورت نہیں تو کیا ہوا انسان تو ہے تو جب رب کریم کے محبوب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حجتہ الوداع میں فرمایا
"اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تم ایک باپ کی اولاد ہو لہذا
کسی عربی کو کسی عجمی پر
اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اِسی طرح کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر
کوئی فضیلیت حاصل نہیں
فضیلیت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیز گاری ہے”۔
@AmUsamaCh