خواتین کے حقوق کے تحفظ میں لاپرواہی،ذمہ دار کون. تحریر : جان محمد رمضان
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ اس دن کا مقصد خواتین کے حقوق اور ان کی معاشرتی حیثیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ملک بھر میں مختلف تقاریب، ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا، جس میں خواتین کے حقوق کے بارے میں بات چیت کی گئی اور ان کی کامیابیوں کو سراہا گیا۔ تاہم، اس دن کے بعد جو افسوسناک واقعہ سامنے آیا، وہ اس بات کا غماز ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور تشدد کے حوالے سے ابھی بھی ایک بڑی خاموشی اور لاپرواہی کا عالم ہے۔
8 مارچ کے بعد، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایف 9 پارک کے قریب ایک معروف فوڈ چین کے باہر ایک سنگین واقعہ پیش آیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں دکھایا گیا کہ ایک نوجوان خواتین کو سڑک پر زدوکوب کر رہا ہے انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا.اس ویڈیو نے پورے ملک میں ایک ہلچل مچائی اور خواتین کے حقوق کے بارے میں ایک نئے سوالات اٹھا دیے۔ویڈیو میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یہ واقعہ نہ صرف خواتین کے ساتھ تشدد کا ہے بلکہ اس میں ان کی بے بسی اور بدترین صورت حال بھی سامنے آتی ہے۔ پولیس نے متاثرہ خاتون کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا اور ایف آئی آر کے مطابق، مرکزی ملزم جمال نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 23 فروری کی رات خواتین کو مارا پیٹا اور ان سے 10 تولہ زیورات اور 20 لاکھ روپے نقد چھین لیے۔
پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ملزم جمال کو گرفتار کیا، لیکن اس کے بعد ایک نیا پہلو سامنے آیا۔ 10 مارچ کو یہ انکشاف ہوا کہ ملزم جمال اور متاثرہ خواتین کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ خواتین نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ سب محض ایک غلط فہمی تھی اور اس وجہ سے وہ یہ مقدمہ واپس لے رہی ہیں۔ خواتین نے عدالت میں یہ کہا کہ اگر جمال کو ضمانت ملتی ہے یا وہ بری ہو جاتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزم جمال نامی شخص کو گرفتارتو کر لیالیکن ایسے لگتا ہے کہ ملزم کے ہاتھ لمبے تھے، اندراج مقدمہ کے بعد تشدد کا شکار خواتین نے ملزم کے ساتھ صلح کر لی اور عدالت میں بیان دے دیا کہ غلط فہمی ہوئی…ابے غلط فہمی کس چیز کی…ویڈیو سامنے آئی…تشدد ہوا..سر عام ہوا..مقدمہ درج ہوا…پھر غلط فہمی کس بات کی….یہی چلتا ہے پاکستانی معاشرے میں..ملزم کو ضمانت ملے گی کل وہ کسی اور کو تشدد کا نشانہ بنائے گا پھر آوازیں اٹھیں گی ہائے خواتین پر تشدد..لیکن یہ جو خواتین تشدد کے بعد بھی صلح کر رہی…اب نام نہاد خواتین کے حقوق کی دعویدار تنظیموں کے منہ کو تالے کیوں لگ گئے، آئیں سامنے اور کہیں کہ ہم مدعی بنیں گی لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گی.
یہ واقعہ ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے نہ صرف قانونی اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ ان کا اعتماد بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی آواز بلند کرسکیں اور ظالموں کے خلاف کھڑے ہو سکیں۔ پاکستان میں خواتین کو تحفظ چاہیے تو انہیں اپنے حقوق کے لئے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ مار کھا کر صلح کر لینا، مجرم کو مزید شہہ دینے کے مترادف ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر کسی عورت کو ظلم کا سامنا ہو اور وہ اس کے خلاف آواز نہ اٹھائے تو یہ ظلم بڑھتا ہی چلا جائے گا۔کل کو اگر ان خواتین کو کہیں اور سے تشدد کا سامنا ہوا تو اس کی ذمہ داری ان خود ہی ہوگی جنہوں نے اپنی خاموشی سے مجرم کو مزید حوصلہ دیا۔ ہمیں اس بات کا شعور حاصل کرنا ہوگا کہ حقوق کا تحفظ صرف اس صورت ممکن ہے جب ہم ان کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں اور معاشرتی بدعنوانیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے حکومت، ادارے، اور خواتین کی خود کی کوششیں اہم ہیں۔ ہمیں خواتین کے ساتھ ہمدردی اور احترام کے ساتھ پیش آنا ہوگا، تاکہ وہ اپنے حقوق کے لئے لڑ سکیں اور معاشرتی سطح پر اپنی مقام بنا سکیں۔ جب تک ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، تب تک خواتین کو ان کے حقوق نہیں مل پائیں گے اور اس طرح کے افسوسناک واقعات ہمیشہ ہمارے معاشرے کا حصہ بنے رہیں گے۔