خواجہ سرا اور ہمارا غیر انسانی رویہ .تحریر : فضیلت اجالہ ۔

0
36
پنجاب میں خواجہ سراؤں بارے 50 مقدمات،پنڈی سب سے آگے

ہم ایک اسلامی ملک کے آزاد باشندے ہیں ،نا صرف ہمارا مزہب بلکہ ہماری اقتدار و روایات بھی ہمیں انسانیت ،بھائی چارے اور حقوق العباد کا درس دیتیں ہیں
ہمارے معاشرے میں عورتوں ،یتیموں، مساکین،نادار، اور بے آسرا افراد خواہ وہ مرد ہو یا زن کیساتھ ہمدردی ،انسانیت اور اخلاقیات برتنے کا سبق پڑھایا جاتا ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے اس پہ عمل ہونا بھی چاہیے لیکن ان سب سے الگ ،سب سے ہٹ کر خدا تعالی کی بنائی ہوئی ایک اور مخلوق بھی ہے جو تمام رشتے ناتے ہونے کے باوجود ہر رشتے سے ہر حقوق سے محروم ہے ،
قدرت کی تخلیق کردہ ایک ایسی تخلیق جسے ہمارا معاشرہ ،کھسرے،شی میل،تھرڈ جینڈر،خواجہ سرا اور ہیجڑے کے نام سے جانتا اور پکارتا ہے ۔جسے ہم سب مخلوق خدا تو مانتے ہیں لیکن طنز و تزیحک ، اور جانوروں سے بدتر سلوک کرنے میں بھی خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں
جس طرح ہمارے مکمل انسان ہونے میں ہمارا کوئ ہاتھ نہی یہ تو احسان ہے اس پاک زات کا جس نے ہمیں مکلمل انسان بنایا بلکل اسی طرح خواجہ سرا بھی اللہ ہی کی تخلیق ہیں اس میں انکا اپنا کوئ عمل دخل نہی پھر ان کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کیوں ،کیوں انہیں اچھوت سمجتے ہوئے خود سے الگ کر دیا جاتا ہے
ہم معزز انسانو میں بمشکل 10 فیصد لوگ ایسے ہونگے جو انہیں عزت و تکریم دیتے ہونگے ۔کیوں انکے مرنے کے بعد بھی انہی کفن دفن، اور جنازہ جیسے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ،انکے مرنے کا اعلان تک نہی ہوتا یہ کہ کر انکار کردیا جاتا ہے کہ کیا کہیں ؟کون تھا کس کا بیٹا،کس کی بہن ،کسکا بھانجا بھتیجا؟؟؟ زندگی بھر ان رشتوں سے محروم رکھا چلو وقت آخر تو اسکی روح کو یہ سکون بخش دو کہ کوئ اسکا بھی اپنا ہے ۔

کیا یہ لوگ انسان نہی ہوتے یا انکا دل نہی ہوتا؟
گلی چوراہوں میں سڑکوں پہ ایسے لوگوں کو اپنے طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے کیا کبھی ہم میں سے کسی نے ایک پل کہ لیے بھی سوچا ہے کہ یہ لوگ کس قدر ازیت و تنہائ کا شکار ہوتے ہیں اور کس قدر مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ کتنا خوفناک اور دلوں کو دھلا دینے والہ تصور ہے نا کہ پیدا ہوئے تو والدین نے رات کے اندھیرے میں والدین نے دنیا کے طعنو ں سے ڈرتے چند پیسے دے کہ کسی کو بھی سونپ دیا کہ اسے یہاں سے گمنام مقام پہ لے جاؤ ،عمر کی کچھ حدیں عبور کی تو نام نہاد معزز اور مکمل انسانوں نے ادھر ادھر چھو کر اپنی حوس کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔پیٹ کی بھوک مٹانے کیلیے ،ضرورت زنگی پورا کرنے کیلیے روزگار کی تلاش میں نکلا تو کھسرا کہ کر دھتکار دیا گیا ، تھک ہار کر روایتی ناچ گانا شروع کیا ،کسی کے گھر بدھائ لینے گیا تو معززین نےاپنی گندی اور ہوس زدہ نظروں کا نشانہ بنایا ۔

وہ مولوی حضرا ت جو تنہائی میں ان پر ٹوٹ پڑنے کو تیار رہتے ہیں وہ بھی انکا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیتے ہیں ،نام نہاد تعلیم یافتہ انسان انہیں چھیڑنے ،اور ہنسی مزاق کیلیے مخلتلف فتوے دینے کو ہر وقت تیار لیکن عزت اور نوکری دیتے ہوئے موت پڑتی ہے ۔
خواجہ سرا وہ مظلوم مخلوق ہیں جنہیں بہن بھائ ،بیٹی سمجھنا تو درکنار انسان بھی نہی سمجھا جاتا اور ایسا غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جو حیوانیت کو بھی مات دے ۔

کوئی خوف خدا کرو زرا تو اپنے ضمر کو جھنجوڑو یہ کیسی غیرت ہے جو کسی کو عزت نہی دے سکتی ،کسی کیلیے زاد راہ نہیں بن سکتے تو پتھر بھی نا بنیے۔
وہ لوگ جو ہماری خوشیوں میں دعائیں دیتے ہوئے شامل ہوتے ہیں انہیں بدعا مت بنائیں ،انہیں زمانے کی ٹھوکرو کے حوالے مت کریں
آج یہ کسی اور کی اولاد ہیں کل کو تمھاری اولاد یا آگے اسکی اولاد میں بھی کوئ ایسا بچہ پیدا ہوسکتا ہے ،کیونکہ حقیقت بس اتنی ہے کہ خالق کل کائنات کی لاٹھی بڑی ہی بے آواز ہوتی ہے کب کہاں کس کو پڑ جائے کسی کو خبر نہی ۔اسلیے کوشش کیجے کہ آپ کے ہاتھ ،زبان اور اعمال سے مخلوق خدا کو گر فائدہ نہ پہنچے تو نقصان بھی نا ہو۔
خدائے بزرگ برتر ہم سب کو اس بات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دیں ۔آمین

Leave a reply