کھلاڑی کپتان کو بچا پائیں گے؟ تحریر: نوید شیخ

0
23

کھلاڑی کپتان کو بچا پائیں گے؟ تحریر: نوید شیخ

جیسے گزشتہ سات سالوں سے پی ٹی آئی کے پاس فارن فنڈنگ کیس میں جواب نہیں تھا آج بھی نہیں تھا ۔ جیسے یہ پہلے اسٹے آڈر کے پیچھے چھپا کرتےتھے آج بھی یہ ہی موقف تھا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو خفیہ رکھا جائے ۔ کہ کہیں ہمارے کرتوت عوام کو نہ پتہ لگ جائیں ۔ مگر چیف الیکشن کمشنر نے اس استدعا کو مسترد کردیا اور کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی کا کوئی ڈاکیومنٹ خفیہ نہیں ہے۔ یاد ہو تو یہ وہی عمران خان ہیں جو کہتا کرتے تھے کہ میں کبھی کچھ نہیں چھپاؤں گا ۔ اس کیس میں اب فروری تک کی تاریخ پڑ گئی ہے ۔

۔ پھر عثمان بزدار کی image building کے حوالے سے بہت خبریں گردش ہیں کہ وہ پاکستان کے سب سے بہترین وزیراعلی ہیں ۔ پتہ نہیں یہ سروے مریخ پر ہوا تھا یا چاند پر ۔ کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی ہر ضمنی انتخاب سے لے کر کینٹ بورڈ کے الیکشن تک ہر چیز ہاری ہے ۔ مگر ایسی سروے رپورٹس تو آنی تھیں جب آپ فنڈنگ کے منہ کھول دیں ۔ ورنہ ان کی کارکردگی کا سب سے بڑا منہ بولتا ثبوت حالیہ سانحہ مری ہے ۔ پھر ڈینگی ہو یا بارشوں کے موسم میں گوڈے گوڈے پانی ۔۔۔ سب کو سب کچھ یاد ہے ۔ بھولے نہیں ۔۔ پھر آج مریم اور بلاول کے بیانات بھی بہت اہم ہیں آپ ان کی سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں ۔ مگر آپ اس چیز کو رد نہیں کرسکتے کہ جو کچھ پی ٹی آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں ان میں چاہے وزراء ہوں ، ایم این ایز ہوں ، ایم پی ایز ہوں یا پھر عام کارکن ۔۔۔ ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہےکہ تحریک انصاف کا انجام قریب ہے۔

۔ اسی لیے شاید آج مریم نے کہہ دیا ہے کہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے ۔ ان کے مطابق حکومت کو ہٹانے کا طریقہ کار بھی جلد سامنے آجائےگا ۔ پھر انھوں نے یہ بھی کہا کہ سمجھ نہیں آیا کہ وفاقی وزیرداخلہ کو ہاتھ سرپرہونے کی بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھر ن لیگ میں بغاوت کے دعوؤں کو حکومت کی نااہلی اور نالائقی سے توجہ ہٹانے کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہوئے مریم نےکہاکہ ن لیگ آگ کے دریا سے گزر کر آئی ہے، ڈرانے، دھمکانے، لالچ اور بدترین انتقام کے باوجود ن لیگ کا ایک ایک ایم این اے اور ایم پی اے چٹان کی طرح کھڑا رہا۔

۔ اس چیز کو ویسے ماننا چاہیے کہ آپ ان سے سیاسی اختلاف کریں ۔ مگر سب کچھ ہونے اور لیڈر شپ کے ملک سے باہر جانے اور جیلوں میں جانے کے باوجود بھی ن لیگ کو توڑا نہیں جا سکا ۔۔ پھر بلاول کہتے ہیں کہ وہ لانگ مارچ سے حکومت گرا کردکھائیں گے۔ مزید یہ بھی کہا کہ آئین اورقانون میں ایمرجنسی کی کوئی گنجائش نہیں،صدارتی نظام کا شوشہ ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہے۔ ۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ حکومتی شخصیات کو زمینی حقائق کا کچھ علم نہیں وہ صرف یہ ہی سمجھتے ہیں کہ ملک سے شریفوں اور زرداریوں کی مقبولیت ختم ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ کسی صورت نہیں ہونا ہے ۔ ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تحریک انصاف مخالفوں کی مقبولیت بھی وہ اپنے کارناموں سے ختم نہیں کرنا چاہتے، یعنی یہ نہیں کہتے کہ ہم عوام کو اس قدر زیادہ ریلیف دیں گے، ان کے مسائل حل کریں گے، ان کی معاشی مشکلات کو ختم کر دیں گے کہ وہ شریفوں اور دیگر کا نام تک نہیں لیں گے بلکہ یہ کہتے ہیں شریفوں اور زرداریوں کو ہمارے سر پر موجود ہاتھ گردن سے پکڑے گا۔

۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا دور ہے کہ جس میں عوام کے لئے سوچنا ایک شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔ پھر یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ہی راگ کب تک الاپا جا سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی نہیں بلکہ اب بھی بہت سستا ملک ہے۔

۔ سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں ہم 22 بار آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو کیا اس طرح اس کے سامنے چاروں شانے چت ہوئے تھے، جس طرح اس بار ہوئے ہیں کیا ماضی میں آئی ایم ایف نے کسی حکومت سے اپنی شرائط پر منی بجٹ منظور کروایا، کیا اسٹیٹ بنک کے حوالے سے قانون سازی کروائی؟ یہ سب کچھ تو اس حکومت کے دور میں ہوا ہے، اس کا جواب دینے کی بجائے سیاسی بیان بازی سے عوام کو کب تک مطمئن کیا جا سکتا ہے؟۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ کیونکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر کسی وقت حکومت پاکستان کی جان پر بن آئے تو بھی وہ سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔ حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔ خدا جانے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ لیکن ایک سچ تو اب پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبے، ہر گلی، ہر کوچے اور ہر گھر کی دیواروں پر لکھا نظر آرہا ہے کہ مہنگائی نے کروڑوں انسانوں کی زندگی بے حد مشکل بنا دی ہے۔۔ سچ یہ ہے کہ کابینہ میں بیٹھے ہوئے بیشتر ارکان وزیر اعظم کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے خوش کر دیتے ہیں پرویز خٹک اور نور عالم خان کی طرح یہ نہیں بتاتے کہ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ عوام میں جانا مشکل ہو گیا ہے۔

۔ اس وقت کپتان کا خیر خواہ وہ نہیں جو بڑھکیں ماررہے ہیں بلکہ اصل حامی اور خیر خواہ وہ ہے جو انہیں حالات کی سنگینی سے خبردار کر رہا ہے۔جیسا کہ نور عالم خان ۔۔۔ جن کو پی ٹی آئی شوکاز نوٹس بھیج رہی ہے ۔ ۔ پھر آجکل پوری کی پوری پی ٹی آئی صرف دھوکہ دینے میں لگی ہوئی ہے ۔ ان کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا اور اس طرح کے بھونڈے سروے کی بدولت تبدیلی کو دوبارہ بیچا سکتا ہے ۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ عمران خان بطور سربراہ پی ٹی آئی اور بطور وزیراعظم پاکستان دونوں ہی حیثیتوں میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے زیادہ تر ممبران اسمبلی، وزیر مشیر اور پارٹی لیڈر اب ہر طرف ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں کہ کہیں ایڈجسٹ ہو جائیں۔ اس میں حیرانی کی بات بھی کوئی نہیں، کیونکہ تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جب بھی ادھر ادھر سے اینٹ اور روڑے اکٹھے کرکے پارٹی بنائی جائے تو اس کا انجام یہی ہوا ہے کہ سب بکھر جاتے ہیں۔۔ شیخ رشید احمد اور فواد چودھری جیسے وزیر جو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ شیخ رشید تو آئندہ سیاست سے چاروں شریفوں کو مائنس کر چکے ہیں جبکہ فواد چودھری شریف اور زرداری خاندان کی سیاست ختم کرنے کے درپے ہیں ۔

۔ جبکہ خبریں یہ ہیں ۔ کہ پی ٹی آئی کے تین وزیر پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر تو اپنا اپنا بائیوڈیٹا اٹھائے اگلا سلیکٹڈ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسا بندوبست ہو جائے کہ باقی کے ڈیڑھ سال تاج ان کے سر پر سج جائے۔ ۔ آپ دیکھیں جب ملک کا وزیر داخلہ یہ کہنے کی بجائے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے یہ کہہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یہ کرے گی وہ کرے گی۔ تو سمجھ جائیں حالات اچھے نہیں اور حکومت عوامی حمایت مکمل طور پر کھو چکی ہے ۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ۔۔۔۔ اس وقت پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز اس شش و پنج میں ہیں کہ اگلا الیکشن کس پارٹی کے ٹکٹ پر لڑیں، کیونکہ آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کا بوجھ اٹھانے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ ظاہر ہے کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی ضمانت ضبط ہو جائے۔ ۔ کیونکہ منی بجٹ کی منظوری کے بعد عوام کا پارہ زیادہ ہائی ہو چکا ہے۔ اس لئے وزراء ہوں یا ارکان اسمبلی عوام سے دوری ہی میں عافیت محسوس کر رہے ہیں جہاں عوامی غصے کا یہ عالم ہو کہ کھاد نہ ملنے پر کسان اسسٹنٹ کمشنر کی درگت بنا دیں وہاں رکن اسمبلی کا حال کیا کریں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

۔ پنجاب کے ایم این ایز مسلم لیگ ن کی قیادت سے رابطے کر رہے ہیں۔ کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا الیکشن سویپ کرنا اب دیکھائی دینا شروع ہوگیا ہے۔ اور یہ کوئی چھپ چھپا کر نہیں کھلے عام ہورہا ہے ۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ پی ٹی آئی کے تیس رکن اسمبلی حمزہ سے رابطے میں اور اگلے الیکشن میں ن لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ پھر یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ سی وی لے کر بہت سے لوگ لندن میں میاں صاحب کا دروازہ کھٹکھانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اسی لیے عمران خان نے اگلے تین ماہ کے لیے اپنے ایم این ایز کے باہر جانے پر پابندی لگائی ۔ ۔ پھر خیبر پختونخوا والے عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے جو اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا وہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے الیکشن لڑے گا اور جو نہ ہو سکا وہ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے گا، خاص طور پر الیکٹ ایبلز کی بڑی تعداد اگلے الیکشن میں آزاد حییثیت سے اسمبلیوں میں جائے گی۔ باقی رہ گیا جنوبی صوبہ پنجاب کا ٹولہ تو وہ ہمیشہ کی طرح اگلے احکامات کا انتظار کریں گے۔ جو غالب امکان ہے کہ اس مرتبہ حکم جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ہو گا۔۔ اس لیے کہنا غلط نہیں کہ ہر صورت میں پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھرنا یقینی ہے۔۔ کیونکہ اس وقت تحریک انصاف خود اندر سے تقسیم در تقسیم کا بھی شکار ہے۔ اسے تنظیمی مسائل کا سامنا ہے۔ اسی لئے تو کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے رزلٹ کے بعد عمران خان نے افراتفری میں تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کر دیا تھا۔ مگر مطلوبہ نتائج ملتے نہیں دیکھائی دیتے ۔۔ یوں آپ موجودہ حالات میں جس جانب نظر دوڑآئیں گے کپتان اور پی ٹی آئی کے لیے زوال ہی زوال دیکھائی دیتا ہے ۔

Leave a reply