خطے میں امن کیلئے پاکستان کی کوششیں . تحریر: محمد اختر

0
22

اس بات سے ہر کوئی آشنا ہے کہ بھارت ا فغان سر زمین استعمال کر کے پاکستا ن کے خلاف ہائبرڈ جنگ میں ملوث ہے۔افغانستان میں بیس برس بیٹھ کر بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوششیں کیں۔کبھی داعش کے دہشت گردوں کی مالی مدد کر کے انہیں پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے بھیجا گیا تو کبھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان قائم کر کے اس میں دنیا بھر سے انتہا پسندوں کو اکھٹا کر کے ان کی مالی معاونت کی جاتی اور انہیں پاکستان میں بد امنی پھیلانے کا ہدف دیا جاتا تھا۔جب پاکستان نے تحریک طالبان کو کا لعدم قرار دیا، تو بھارت نے افغان صدر اشرف غنی سے کہا کہ انہیں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں پناہ دی۔اب بھی چھ سے سات ہزار کے قریب دہشت گرد جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے ہے، وہ بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔پاکستان نے عالمی برادری کو دہشت گردوں کو (را) کی فندنگ کے ثبوت فراہم کئے لیکن عالمی برادری نے بھی اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔چندہفتے قبل لاہور میں ہونے والے بم دھماکے کے پیچھے بھی (را) موجود تھی۔شواہد کے باوجود عالمی برادری نے بھارت کی مذمت تک نہیں کی۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے چند دنوں میں ملک کے طول و عرض پر قبضہ کر لیا ہے۔ حتی کہ پاکستان،چین،ایران ازبکستان اور روس کے ساتھ ملنے والی افغان سرحدوں پر بھی طالبان نے اپنی رٹ قائم کر دی ہے۔ جس کے بعد بھارت نے بندر کی طرح بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔کبھی ایک ملک کے پاوًں پڑتا ہے، تو کبھی دوسرے ملک کے تلوے چاٹتا ہے کیونکہ بھار ت کو نہ صرف افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے بلکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے اسے جو سہولت میسر تھی وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔پاک افغان سرحد کے قریب بھارت کے ایکسو پچاس کے قریب قونصل خانے تھے، اس نے جہاں دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی تھی۔لیکن افغان طالبان کے کنٹرول کے بعد نہ صرف بھارتی سازشیں دم توڑ گئی ہیں بلکہ اس کے پروردہ دہشت گرد بھی اب دم دبا کر بھاگ رہیں ہیں۔بھارت ایک طرف تو افغان طالبان کے ساتھ رابطے استوار کرنے کے لئے تگ ودو کر رہا ہے۔دوسری طرف بھارتی سفیر جے شنکر نے روس اور ایران کے ہنگامی دورے کر کے جلال آباد اور قندھار کے قونصلیٹ کی تالہ بندی پر اظہار تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مدد طلب کی ہے۔اس کے علاوہ جب بھارت اپنے سفارتی عملے کو یہاں سے نکالنے کے لئے آیاتو جہازوں میں اسلحہ لاکر افغان حکومت کو دیا۔جس کا مقصد افغانستان میں امن وامان کو تہہ وبالا کرنا تھا۔گزشتہ ہفتہ بھارت میں غنی حکومت کے سفیر فرید مامونزائی نے کہا ہے؛کہ افغان انٹرا مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں طالبان پر بمباری کے لئے بھارتی فضائیہ کی ضرورت پڑے گی۔ان کا کہنا تھا کہ؛ بھارتی فضائیہ کی مدد سے طالبان کو شکست دینا ہوگی۔باقی ملکوں کی طرح بھارت بھی اگر خطے میں امن کا خواہاں ہوتا تو وہ طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دیتا۔ماضی کی غلطیوں کی تلافی لیتا لیکن ہندوستان حقیقت میں
امن کا حامی نہیں۔

وہ اب بھی فاتح کے بجائے شکست خورہ عناصر کو تھپکی دینے سے باز نہیں آ رہا۔بھارت کی کوشش ہے کہ وہ ایران شمالی اتحاد ہزارہ تاجک اور ازبک سمیت دیگر قبائل سے ہاتھ ملا کر افغانستان میں فرقہ ورانہ بنیاد پر قتل و غارت شروع کروائے۔ اس صورت میں بھارت کے ساتھ ہزار کے قریب دہشت گردوں اور باقی مفادات کا تحفظ ہوسکتا ہے۔بصورت دیگر امریکا کی طرح بھارت کو بھی بوریا بسترہ گول کر کے وہاں سے کوچ کرنا ہوگا۔طالبان نے گزشتہ ہفتے سپین بولدک کا کنٹرول سنبھالا تو افغان انٹیلیجنس ایجنسی کے دفتر سے تین ارب روپے کی پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی۔اس رقم کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں تخریبی کارو ائیاں کرنے والے دہشت گردوں کو بطور معاوضہ ادا کی جانی تھی۔کیونکہ ماضی میں دہشت گردوں کو ہمیشہ یہی سے پیسہ بھیجا جاتا تھا۔پاک افغان بارڈر پر غنی حکومت کے لئے سب سے بڑا دھچکا ہے کیونکہ یہاں سے یومیہ نوسو سے ہزار مال بردار ٹرک اور ٹینکر گزرتے تھے جبکہ ساٹھ سے ستر ہزار افراد کی امدورفت بھی ہو تی تھی۔اس کے علاوہ نیٹو فورسز کی بڑے پیمانے پر سپلائی بھی یہاں سے ہوتی تھی۔اس بارڈر پر طالبان کے قبضے سے کابل حکومت کی معاشی تدفین کا بھی آغا ز ہو چکا ہے۔یہاں سے اب روزانہ کی بنیاد پر طالبان ریونیو حاصل کریں گے بلکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات بھی قائم کریں گے۔ پاکستان مستقبل قریب میں افغانستان کے لیے ایک امن کانفرس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج بر آمد ہونگے۔افغان طالبان تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے میں کوشاں ہیں۔برطانیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان میں حکومت بنائی تو ہم ان کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔برطانوی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ؛عالمی برادری کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لہذا اشرف غنی بھی طالبان سے مل کر ملکی استحکام کے لئے کام کریں تاکہ خطے میں امن کی فضا قائم ہو سکے۔

@MAkhter_

Leave a reply