خود احتسابی تحریر: حلیمہ اعجاز ملک

0
84

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا روز مرہ کا ایک جدول بنا کر اس کے مطابق اپنا محاسبہ کیا کریں تا کہ خود احتسابی کے عادی ہو سکیں مگر یاد رہے کہ خود احتسابی کے لیے یکسوئی اور ضمیر اور اس کی عدالت کا ہونا لازمی ہے یعنی ہمارے ضمیر کی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں

کچھ لمحے کی لیے سر جھکا کر اپنی گزشتہ زندگی کا احتساب کریں کہ کہاں سے چلے تھے اور آج کہاں ہیں؟ نفع میں ہیں یا نقصان میں جا رہے ہیں۔ اگر نفع میں ہیں تو اللّٰه کا شکر ادا کریں

نفع سے مراد یہ ہے کہ زندگی نیکی اور اچھائی کے کاموں میں گزری ہو یعنی نماز، روزے کی پابندی کی ہو، ریاکاری، جھوٹ، غیبت، چغلی، حسد، تکبر، وعدہ خلافی، والدین کی نافرمانی و دل آزاری سے بچنے کے ساتھ ساتھ دیگر احکاماتِ خداوندی بجا لاتے ہوئے زندگی بسر کی ہو تو نفع میں ہیں

لیکن اگر اس کے برعکس زندگی کے لمحات گناہوں اور فضولیات میں گزرے ہوں تو سمجھ جائیے کہ ہم اس کاروبارِ حیات میں نقصان اٹھا رہے ہیں لہٰذا فوراً سنبھل جائیے اور توبہ کر کے اللّٰه کو راضی کرنے والے کاموں میں لگ جائیے

دل میں جب بھی کوئی خیال پیدا ہو تو اس پر عمل کرنے کے بجائے ذرا توقف فرما کر سوچیے کہ یہ خیال رضائے الٰہی کے حصول کا سبب بن سکتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ قربِ خدا کا باعث بن سکتا ہے تو اس سے پہلے کہ یہ فوت ہو جائے اس پر فوراً عمل کر گزریئے۔ اس کے برعکس اگر کوئی ایسا خیال آئے جو اللّٰه سے دوری کا سبب بنے تو اسے دل کی تختی سے فوراً مٹا ڈالیے کہ کہیں وہ پختہ نہ ہو جائے بلکہ کوشش کیجیے کہ جب بھی آپ کی دل میں ایسا کوئی خیال آئے جو یادِ اللّٰه سے دور کرنے والا ہو تو فوراً بدل دیجیئے اس خیالِ غیر کو خیالِ یار سے تا کہ وہ آپ کو نہ بدل سکے۔

حضرت ابو طالبؓ فرماتے ہیں کہ وہ مختلف روایات میں مروی ہے کہ بعض نیک کام عمر میں زیادتی و برکت کا سبب بنتے ہیں تو جان لیجیے کہ عمر میں برکت سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنی چھوٹی سی عمر میں رضائے رب الانام کے حصول کی خاطر نیک کام کر کے وہ مقام و مرتبہ پانے میں کامیاب ہو جائیں جو دوسرے طویل عمر میں اپنی غفلت کے سبب نہ پا سکے اس طرح 12 ماہ کے قلیل عرصہ میں آپ علم و عمل کے اس بلند مقام پر فائز ہو سکتے ہیں جس مقام پر کوئی دوسرا شخص دین سے دوری کی بنا پر 20 سالوں میں بھی نہ پہنچ پائیں

اب سوال یہ ہے کہ خود احتسابی کیسے کریں؟؟

خود احتسابی سے مراد نفس کا محاسبہ کرنا اور روزانہ یہ دیکھنا ہے کہ آج کیا کیا؟ نیکی کے کام کر کے قربِ رب العزت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں؟ اور اگر کوئی شخص محاسبہ کرتے ہوئے اپنے نامۂ اعمال میں نیکیوں کی کمی اور گناہوں کی زیادتی پائے تو اسے چاہیے کہ اللّٰه سے ڈرے اور توبہ کرتے ہوئے نیکیوں کی کثرت کی خواہش کرے کہ گناہ کے بعد نیکی کرنا گناہ کو مٹا دیتا ہے

فرمانِ اللّٰه ہے

"بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں”

زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے، موت اپنی تمام تر سختیوں سمیت پیچھا کر رہی ہے۔ عنقریب ہمیں مرنا ہے اندھیری قبر میں اترنا ہے، اپنی کرنی کا بھگتنا ہے۔ یقیناً وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو مرنے سے قبل آخرت کی تیاری کر لیتے ہیں

اے بے خبر! موت سے غافل نہ ہو
یہاں سب چھوڑ کر جانا ہے تجھ کو

کاش! دیگر فرائض و سنن کی بجائے آوری کے ساتھ ساتھ ہم تمام لوگ قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنا لیں۔

کچھ نیکیاں کما لو، جلد آخرت بنا لو
کوئی نہیں بھروسا اے لوگو زندگی کا

@H___Malik

Leave a reply