خدا کی بستی اور ہم . ‏تحریر : سہیل احمد

0
49

عجیب سلسلہ چل پڑا ہے. کہاں کی بات کہاں تک آگئی. ہر دورمیں ایک مشترکہ لائعہ عمل اور مشاہدہ. ہر بشر کو گزرا زمانہ کیوں بہتر لگتا ہے. پرانی پیڑی والے اپنا رونا روتے ہیں. ایک تحقیق کے مطابق اںگریزوں کے پاس ایک سسٹم موجود ہے زندگی گزارنے کا. اور اس کو تسلیم کرکے ہنسی خوشی نظام کا حصہ بھی رہتے ہیں . لیکن عمر کی آخری حد تک ان کو بھی اگر کوئی خوف ہوتا ہے تو وہ ہے موت کا ڈر. پاکستان میں ہر بندہ نواب . جبکہ اسکولوں تعلیم یوں پڑھائی جاتی ہے کہ ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست. میرا ماننا ہے کہ تعلیم اور روزگار میں دوہرا معیار کس لیے. کیوں بچوں کو سہانا خواب دکھانے پر ترجیح دی جاتی ہے. 16 سال پڑھائی کرنے والا کم تعلیم یافتہ سیٹھ کے نیچے کیوں جاب مانگنے کیلیے سفارش ڈھونڈتا ہے.دوسری تحقیق کے مطابق شہر کی زندگی میں سرکاری نوکری کیلیے گاوں کے لوگوں کی بھرمار کیوں.

عرف عام میں مشہور ہے کہ سرکاری ادارے صبح 8 بجے سے 2 بجے تک ناں کام کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کی رشوت.
غلط زرائع سے پیسا کماکر اللہ کی راہ پر خرچ کرنا کہاں کی منطق. ہم کس گلی سے نکلے اور کس طرف چل دیئے. فیصل آباد کا ایک مشہور جھول وہ بھی سرکاری ادارے میں .ہوا کچھ یوں کہ کافی سال پہلے نواز شریف کی گورنمنٹ میں رانا ثناءاللہ خان کے عہد میں چیف فوڈ انسپکٹر جناب صاحب کو پروموٹ کیا.

نیچے پوری ٹیم دی گئی.پورے علاقے میں شور ڈالا گیا تاکہ جناب آفیسر صاحب کا کشکا اور رعب ڈالا جائے اور رشوت کے ریٹ کا تعین کیا جائے .نیچے کیش ریکوری کیلیے نام نہاد کرتے دھرتے بھی دیئے گئے. اور انکے ہاتھ میں ایک عام کمپیوٹر سے پرنٹ کروایا ہوا کھاتا بھی تھما دیا گیا جہاں جہاں جوان جاتے کاغذ دکھاتے اور روکڑا وصول کرکے صاحب نامدار اور خود بھی رکھتے. سننے میں آیا تھا کہ صاحب نامدار کی بیٹیاں بھی ڈاکٹر بن رہی تھیں . اور بہت بڑے بنگلے میں بھی رہائش پزیر تھے. پھر ایک دن وہی ہوا جس کا خطرہ لاحق تھا ات خدا دا ویرپوری ٹیم کے پیچھے کچھ رپورٹس موصول ہوئیں اور ٹیم کو لائن حاضر کر لیا گیا.انکوائری کے مطابق جناب آفسر صاحب میونسپل کارپوریشن میں ماشقی (پانی سپلائی کرنے والے) بھرتی ہوئے تھے پھر منظور نظر ہونے کے ان کو پروموٹ کیا گیا وہ بھی وہاں جہاں اوپر زکر کر دیا گیا .

بالآخر مراعات .پروٹوکول.ہر چیز پر پانی پھر گیا. اپنے مفادات کیلیے آنکھوں پر پٹی باندھنا کیوں ضروری. ہر ایک نے اپنا فتوئ اپنی جیب میں فوٹو کاپی کروا کر رکھ لیا ہے مثال کی بنیاد یہ ہے کہ ہم اپنا احتساب کیوں نہیں کرنا چاہتے ہماری پیدائش پر تو شروعات اللہ رسول کے نام پر کی جاتی ہے حتئ کہ نام رکھنے پر بھی اور آزان بھی دی جاتی ہے. کیا ہمارے مسلمان ہونے کا تقاضا 7 سال تک کی عمر تک متعین ہے. ایک بات تو طے ہے کہ پریشانی میں خدا زیادہ یاد آتا ہے.
لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت آجکل گھروں میں بچوں کے ہاتھ میں مسلسل موبائل چلانے کے اثرات سے ہم کیوں غافل ہو چکے ہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ آنے والی نسلوں کو ہم سوشل میڈیا پر سہانے خواب دکھا ریے ہیں جبکہ پریکٹیکل لائف بہت مختلف ہوتی ہے. کیا ہم انکے ساتھ انصاف کر پا رہے ہیں کیا ہم انہیں بہتر مستقبل کی جانب گامزن کر پائیں گے جبکہ ہمارے اسکول کاروبار بن چکے ہیں . لاکھوں روپیہ کمانے کے بعد بھی گھروں میں بے سکونی کی کیفیت کیوں جی.
لوگ پیسا دیکھتے ہیں سورس نہیں دیکھتے بس چڑھتے سورج کو سلام بیٹی کی شادی کیلیے داماد کے ماتھے پر محراب اور مال دولت کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جاتا ہے

جبکہ بیٹے کی شادی پر جہیز میں ہنڈا سوک ہوجائے تو کوئی مضائکہ نہیں .الفاظ میں وزن بس یونہی . کہ زندگی تو انہوں نے گزارنی ہے
پھر تو کون تے میں کون .روز گھروں میں طعنوں کا تڑکا اور الزامات کی دال پکتی رہتی.سمجھ سے باہر کہ قصور وار کس کو کہوں
معاشرے کو, خود کو.حکومت کو, ایسا لگتا ہے کہاب تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گےمر کہ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے.

‎@iSohailCh

Leave a reply