"رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی” تحریر محمد عبداللہ

0
54

فیسبک ٹائم لائن پر کئی احباب کی تحاریر دیکھی ہیں جن میں جمعہ کے خطبہ، واعظین کے انداز بیان، سلیقہ گفتگو وغیرہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے. یہ بات واقعی ہی حقیقت رکھتی ہے کہ واعظین کے سلیقہ گفتگو اور موضوعات کے انتخاب پر لازمی طور پر بحث ہونی چاہیے اور ان کو دونوں چیزوں کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے.
بشمول میرے اکثر احباب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جمعہ کی نماز وہاں پڑھی جائے جہاں پر خطبہ دینے والا دھیمے مزاج میں گفتگو کر رہا ہو اور اس کی گفتگو کا موضوع ہمارے مسائل معاملات لیے ہو تاکہ ہم دلچسپی سے سن سکیں. وگرنہ تو جمعہ کے خطبہ کے دوران نیند معمول بنتی جا رہی ہے.
ہم ڈی ایچ اے فیز تھری کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرتے رہے ہیں وہاں پر خطبہ دینے والے مولانا صاحب نے مجال ہے جو کبھی اپنے موضوع سے ہٹ کر بات کی ہو، یا موضوع کو ہی بہت زیادہ پھیلادیا ہوکہ بعد میں سمیٹنا مشکل ہوجائے اور عام موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے کبھی مائک پھاڑا ہوا یا شدت جذبات سے ڈائس پر مکے مارے ہوں. ایسی بہت ساری مساجد اور وائطین دیکھے ہیں لیکن تاحال ہزاروں ایسے ہیں جو پورے ہفتہ کے غصے اور جذبات کے اظہار کے لیے جمعہ کے خطبہ کو بہترین خیال کرتے ہیں.
مثال کے طور آپ نے بیان کرنا ہے کہ مسواک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آپ نے اس کی تاکید بیان کی ہے تو یہ بلکہ دھیمے انداز میں خوبصورت الفاظ کے ساتھ نرمی سے بیان ہوسکتا ہے اب مسواک کو اس طرح شدت سے "مسسسسسوااااااااااااااک” کہنے سے لوگ جمعہ چھوڑ کر مسواکیں خریدنے تھوڑا چلے جائیں گے.
آپ جنت کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں تو جنت جتنی پیاری ہوگی ہم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن بعض وائظین ایسے گلہ پھاڑ انداز میں "جنت” لفظ کو کھینچتے ہیں ڈر لگنے لگ جاتا کہ جنت ہی ہے نا جس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں میں شوق پیدا کیا کرتے تھے.
ایک اور بڑا ایشو جمعہ کے خطبہ کے لیے موضوعات کا انتخاب اور اس کی تیاری ہے. معاشرے میں مسائل کیا چل رہے ہیں، نوجوان کن مسائل میں الجھا ہوا ہے، والدین کے ایشوز کیا ہیں. اگر عالم دین کو سامنے بیٹھے لوگوں کے معاملات و مسائل سے آگاہی اور وہ اس ترتیب میں موضوع کا انتخاب اور اسکی باقاعدہ تیاری کرے تو مجال ہے اس کی مسجد کا رش اور لوگوں کی دلچسپی کم ہو.
لوگ موٹیویشنل اسپیکرز کو کیوں سنتے ہیں وجہ ہے کہ وہ ان کے مجموعی اور انفرادی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی امید دیتے ہیں. حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ محلے کی مسجد کا خطیب سب سے بڑا موٹیویشنل اسپیکر ہونا چاہیے اور ہوتے بھی ہیں. وہ لوگوں کو امید دے، شوق دے اور سوشل ہو اور سوشل ایکٹیویٹیز میں لوگوں کے ساتھ چلے.
محمد عبداللہ

Leave a reply