کیا موجودہ پاکستان قائد اعظم کا پاکستان ہے . تحریر : میاں اسد

0
24

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد قائد اعظم کی وفات ہوئی۔اور قائد کی وفات کئی سوالات کو جنم دے گئی۔
قائد اعظم کو ٹی بی جیسے خطرناک مرض کی تشخیص کے بعد زیارت جیسے ٹھنڈے مقام پہ کیوں بھیج دیا گیا؟
طبیعت کی ناسازی پہ زیارت سے واپسی کے لئے خراب ایمبولینس کس کے کہنے پہ مہیا کی گئی؟ ملک پاکستان کے سربراہ گورنر جنرل کے لئے اضافی ایمبولینس کیوں نہیں رکھی گئی؟

ان سوالات کے جوابات آج تک نہیں مل سکے۔
اس واقعے کے تین سال بعد ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو جلسے کے دوران سکیورٹی کے باوجود شہید کر دیا گیا۔ انہیں شہید کرنے والا ایک افغان باشندہ تھا جسے گرفتار کرکے تفتیش کرنے کی بجائے جائے وقوعہ پر ہی گولی مار دی گئی۔یہ سازش بھی ان تک بےنقاب نا ہو سکی۔
اس کے بعد پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل جو اب دوسرے وزیراعظم بن چکے تھے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔۔
اور پھر مارشل لاء کا دور آیا ۔ جی وہی دور جب ہمیں حقیقی سیاستدانوں کی ضرورت تھی اپنی مرضی کے سیاستدان لانچ کیے گئے۔جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اسی قائد کے پاکستان میں قائد اعظم کی ہمشیرہ کو غدار کہا گیا اور نجس جانور سے تشبیہہ دی گئی۔۔۔

قائد کے پاکستان میں چائے بسکٹ کا خرچ بھی وزراء اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ مگر آج اس کے برعکس وزراء ہاوسز،گورنر ہاؤسز،صدارتی محل اور بیشتر کیمپ آفسز کا سالانہ خرچہ اربوں میں بنتا ہے۔
قائد کے پاکستان میں پروٹوکول کے نام پر غریب عوام کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک بار قائد اعظم کی گاڑی گزارنے کے لئے ریلوے کا بند پھاٹک کھولا گیا تو قائد کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: اگر میں قانون کی پاسداری نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟ آپ نے پھاٹک بند کرنے کا حکم دیا۔
زیارت میں ایک بار نرس نے تبادلہ کروانے کے لئے آپ سے درخواست کرنا چاہی، مگر آپ نے اداس لہجے میں جواب دیا: سوری بیٹی! یہ محکمہ صحت کا کام ہے۔

قائد کے 13ماہ ہمارے 73سالوں پر غالب نظر آتے ہیں۔ آج ہم سب (Look Busy Do Nothing) کے محاورے پر چل رہے ہیں۔ ہم خود کو مذہبی کہتے ہیں مگر مذہبی ہیں نہیں۔ ہم قانون کی پاسداری کی بات کرتے ہیں لیکن کسی کواس کا حق دینے کے لئے تیار نہیں۔ہم بات بات پر کہتے ہیں کہ ملاوٹ نا کرو۔اس حوالے سے قرآن وحدیث کی باتیں بھی کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ اب صرف نوٹ والا قائد باقی ہےاور وہ بھی گندہ ہو جائے تو دکان دار لیتا ہے نا خریدار سفر لمبا ہے کم سے کم ابتداء اس سے کر لیجیے کہ آج جب قوم اور ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے تو ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔اور ان کے تصورات کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی اہمیت کیا ہونی چاہیے تھی؟ ہم سب کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی تعمیر وترقی اور استحکام کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ یہی راستہ ہے قائد اعظم کے نظریے اور تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا۔ بات ہے مساوی حقوق کی۔ بات ہے مساوی قانون کی۔ جو قانون ایک عام شہری کے لئے بنایا گیا کیا اس پر عمل کرنا حکومت اور عوام کی توہین کی ہے؟

سوچیے اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے

@Asad_Tells

Leave a reply